پشاور کہانی: ترقی معکوس

چودہ جون 2014ء: خیبرپختونخوا کے محکمہئ داخلہ (ہوم اینڈ ٹرائبل افیئرز ڈیپارٹمنٹ) نے اعلان کیا کہ سال 2009ء میں ’پشاور سیف سٹی پراجیکٹ‘ کا جو تصور پیش کیا گیا تھا اُس کی تکمیل جلد کر دی جائے گی۔ ذہن نشین رہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کیلئے ’سیف سٹی پراجیکٹ‘ کے ساتھ ’پشاور سیف سٹی پراجیکٹ‘ بھی دوہزار نو میں شروع کیا گیا اور مختلف محکموں سے ہوتا ہوا‘ یہ منصوبہ 2017ء میں محکمہئ پولیس کو سونپ دیا گیا جس کے ڈھائی سال بعد فروری 2020ء میں محکمہئ پولیس نے تکنیکی مشاورت (کنسلٹنسی) حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ 30 دسمبر 2020ء کو وزیراعلیٰ نے ’نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کیمونیکشن سروسز‘ نامی ادارے کو منصوبے میں شامل کرنے کا حکم دیا لیکن محکمہئ داخلہ نے جب کیمونیکیشن سروسز محکمے کی صلاحیت کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اِنہیں ایسا کوئی بھی منصوبہ کرنے کا تجربہ نہیں ہے‘ اِس لئے صوبائی فیصلہ سازوں نے عالمی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ عمل تاحال جاری ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور سیف سٹی پراجیکٹ پر لاگت کا ابتدائی تخمینہ ’ڈیڑھ ارب روپے‘ تھا‘ جس کی کئی ایک خصوصیات میں پشاور کی تمام مرکزی‘ مصروف ترین اور اہم شاہراؤں بشمول داخلی و خارجی راستوں کی کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن (CCTV) کیمروں کے چوبیس گھنٹے نگرانی‘ کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں کو موبائل فون کی مواصلاتی وسائل (وائرلیس  ٹیکنالوجیز) کے ذریعے نگران مرکز سے رابطہ‘ گلوبل پوزیشنگ سسٹم (GPS) اور الیکٹرانک نقشہ جات اور ایف ایم ریڈیو (FM Radio) جیسے وسائل کی مدد سے اہل پشاور کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا شامل ہے۔ اِسی حکمت عملی کے تحت ’ٹریفک وارڈن سسٹم‘ بھی متعارف کروایا گیا جس پر ساڑھے بارہ کروڑ روپے لاگت آئی۔ صوبائی حکومت نے سال دوہزارچودہ میں محکمہئ پولیس کو مجموعی طور پر ’اٹھائیس ارب روپے‘ سے زائد مالی وسائل فراہم کئے گئے تھے جن میں سے ساڑھے چوبیس ارب روپے تنخواہوں اور مراعات جبکہ ’4 ارب روپے‘ پولیس کی عملیت (آپریشنل کاسٹ) کے لئے مختص ہوئے۔پچیس اپریل 2022ء: خیبرپختونخوا حکومت کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ سازوں نے طویل عرصے سے تعطل کا شکار ’پشاور سیف سٹی پراجیکٹ‘ کو مرحلہ وار اور رواں برس کے اختتام سے پہلے مکمل کرنے کا فیصلہ کیا اور منصوبے پر کل لاگت کے تخمینہ 19 ارب روپے خرچ کرنے کی منظوری بھی دی۔ تصور کریں کہ سال 2014ء میں جو منصوبہ ڈیڑھ ارب روپے سے مکمل ہونا تھا سال 2022ء میں اُسی کی لاگت ’19 ارب روپے‘ ہو چکی ہے! ابتدائی معلومات کے مطابق صوبائی حکومت ’سیف سٹی پراجیکٹ‘ کی مرحلہ وار ابتدأ ’حیات آباد‘ سے کرے گی جس پر 50 کروڑ (500 ملین) روپے خرچ آئے گا اور حیات آباد کو محفوظ بنانے کے بعد اِسے پشاور کے دیگر حصوں میں پھیلایا جائے گا۔ حیات آباد‘رہائشی و کاروباری اور تجارتی علاقوں پر مشتمل  بستی 1970ء کی دہائی میں قائم ہوئی‘ جس کے 7 حصے (فیزیز) بنائے گئے اور ہر حصے (فیز) کی درجہ بندی انگریزی الفاظ کے حروف سے کی گئی۔ قابل ذکر ہے کہ یہ پشاور کی پہلی منظم اور جدید بستی تھی‘ جہاں تعمیراتی قواعد پر بڑی حد تک عمل درآمد کیا گیا تاہم یہ آج تک مثالی ترقی نہیں کر سکا کہ اِس کے کئی حصوں میں پینے کے پانی کی قلت‘ صفائی کی ناقص صورتحال‘ تجاوزات‘ سڑکوں اور گلی کوچوں کی خستہ حالی اِس پوری حکمت عملی کی ناکامی کے اسباب میں شامل ہے! بہرحال فیصلہ ہوا ہے کہ ’سیف سٹی پراجیکٹ‘ کے تحت حیات آباد کے طول و عرض میں 96 مقامات پر 500 کلوزسرکٹ کیمرے نصب کئے جائیں گے جنہیں 56 کلومیٹر طویل بچھائی جانے والی تار (آپٹیک فائبر) سے جوڑا جائے گا۔ ضرورت واضح ہے لیکن حکومتی منصوبوں کو تکنیکی مشاورت (کنسلٹنسی) کے بغیر مکمل نہیں کیا جاتا اِس لئے چند کروڑ روپے کسی کمپنی کو دیئے جائیں گے جو یہ بتائے گی کہ مذکورہ 500 کیمرے کہاں کہاں نصب ہونے چاہئیں۔ اصولاً اِس قسم کی حکمت ِعملی جس میں حفاظتی انتظامات کا عمل دخل ہو تو کسی غیرحکومتی ادارے کی خدمات سے استفادہ کرنا اور اُسے تمام تر معلومات اور کسی علاقے میں ہر سمت سے رسائی دینا اپنی ذات میں خطرہ اور ’سیف سٹی پراجیکٹ‘ کے حوالے سے احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔