عشق میں کون سنے ہے کسی محتا ط کی بات 

اور اب خیر سے رمضان المبارک کے آخری عشرے کے آخری آخری شب و روز ہیں اور دو دن میں عید الفطر کی مبار ک سلامت کا سماں ہو گا، عید کی خوشی میں ایک زیریں لہر اداسی کی بھی ہو گی اور وہ اداسی یقینا رحمتوں اور بے پایاں برکتوں والے ماہ مقدس رمضان کریم کے ختم ہونے کے حوالے سے یوں ہو گی کہ کون جانے جب اگلے برس رمضان المبارک آئے گا تو اس کا استقبال کرنے کے لئے ہم میں سے کتنے لوگ موجود ہوں گے جو اس کو دیکھ پائیں گے اور اس کی برکتوں سے مستفید ہوں گے۔ ریاض مجید نے کہا ہے کہ 
جب اگلے سال یہی وقت آ رہا ہو گا
 یہ کون جانتا ہے کون کس جگہ ہو گا
ایک گونہ افسوس میرے جیسے مبتلا لوگوں کو اس بات کا بھی ہو گا کہ ان با برکت شب و روز کے معمور خزانہ سے فیض یاب ہو نے کا جتنا موقع ملا تھا روزمرہ کی بے معنی قسم کی مصروفیات نے ہمیں ا تنا فائدہ نہیں اٹھانے دیا۔ مجھے یاد ہے اور بارہا میں کہتا بھی رہتا ہوں کہ میں نے اپنی جنت مکاں والدہ کو رمضان کے آخری عشرے میں بہت افسردہ اور اکثر جائے نماز پر سسکیوں سے روتے دیکھا ہے، بھول پن کا زمانہ تھا تب کچھ معلوم نہ تھاتو ایک دن پوچھ بیٹھا کہ ویسے تو ہمیشہ ہر نماز کے بعد دعا مانگتے ہوئے آپ کی آنکھوں میں نمی سی ہوتی ہے مگر روزوں میں اور آخری آخری روزوں میں تو آپ کی حالت دیکھی نہیں جا سکتی، مجھے چمکار کر کہنے لگیں، بیٹے آپ کو معلوم ہے نا کہ کچھ دنو ں میں روزے مسافر ہو رہے ہیں، پھر جب یہ سال بعد سفر سے لوٹیں گے تو کون جانے کہ ہم انہیں دوبارہ دیکھنے کے لئے موجود ہوں نہ ہوں، تب مجھے بھی ایک لمحہ کو خیال آیا کہ واقعی رمضان کے موسم کا اپنا ایک لطف اور اپنا ایک مزہ ہے، ابھی تو ہم بمشکل ضد کر کے چند ایک روزے رکھتے تھے، سحری کے لئے سونے سے پہلے ہر روز تاکید کرتے مگر کم کم ہی ہمیں جگایا جاتا، البتہ افطار کے وقت ضرور شریک ہوتے شدت سے شام کے وقت کا انتظار ہوتا اور پھر ہم چند بچے مسجد کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر مغرب کی اذان کا انتظار کرتے اور جس وقت مؤذن اٹھ کر اذان کے چبوترہ کی طرف جانے لگتا ہم الرٹ ہو جاتے اور اللہ اکبر کی بلند ہونے والی پر شوکت آواز کے ساتھ چیختے ہوئے گھروں کی طرف بھاگتے کہ ”روزہ دارو روزہ کھول دو“ میرے بچپن میں رمضان المبارک گرمیوں کے مدار میں گردش کرتا رہا، چنانچہ میری یادوں میں افطاری ٹھنڈے شربت سے ہوا کرتی تھی، یہ گڑ کا شربت ہوا کرتا تھا، اس جیسا ذائقہ پھر کبھی نہ چکھا، پشاور ہشتنگری میں ایک زمانے میں گڑ کے شربت کی کئی ایک دکانیں تھیں، پشاور آنے کے بعد میری رہائش تو مسجد مہابت خان سے متصل کٹرہ میں تھی جہاں سے میں گرمیوں میں کم و بیش ہر شام ہشت نگری دکانیں بدل بدل کر گڑ کا شربت اس امید پر پیتا کہ شاید کبھی مجھے ماں کے ہاتھ کے بنے ہوئے گڑ کے شربت جیسا سواد آ جائے مگر ایسا کبھی ممکن نہ ہوا۔ ہم گھر کی چھت پر افطاری کیا کرتے تھے، میرے والد گرامی کو بھی گڑ کا شربت بہت پسند تھا، چینی ان کو زیادہ پسند نہ تھی بلکہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ چار گورے، ا نسان کی صحت کے سخت دشمن ہیں اورفائدہ اسی میں ہے کہ جتنا ممکن ہو ان سے دور رہا جائے، ان دنوں،گوروں (انگریزوں) سے آزادی حاصل کر کے مملکت خدادا پاکستان کے بننے کی بمشکل دس بارہ برس ہی ہوئے تھے، اور ہم عبدالاحد ساز ؔکی طرح خوش تھے 
ساز ؔہے دل زدہ اب بھی ترے شعروں کے طفیل 
 ہم تو سمجھے تھے کہ اے میر یہ آزار گیا 
مگر معلوم ہوا کہ چار گورے اب بھی باقی ہے، مگر بعد میں یہ جانا کہ والد گرامی(مرحوم و مغفور) انسان کی صحت کے دشمن جن چار گوروں کی بات کیاکرتے تھے اس کا ادراک بعد کے زمانوں میں طبی ماہرین اور معالجین نے بھی لوگوں کو ان سے محتاط رہنے اور پرہیز کرنے کی تلقین اور تاکیدکی، یہ چار گورے در اصل چینی، چاول، گھی اور آٹا تھا، جب میں پہلی بار ”دل کے ہاتھوں“ مجبور ہو کر دل کی شکایت کرنے دوست مہرباں پروفیسر ڈاکٹر محمد حفیظ اللہ کے پاس ان کے مطب(کلینک) پہنچا، (”دل باتیں“ سے لے کر تازہ ترین کتاب ”ْ قلب ِ منیب“ تک جن کی اردو اور انگریزی زباں میں کئی کتابیں شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں) ظاہر ہے ان سے بہتر دل کے معاملات سمجھنے والا شہر میں بھلا اور کون ہو سکتا ہے، جب میں ان کے پاس پہنچا تو مجھے اس وقت اپنے والد گرامی کی یہ بات بہت یاد آئی حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا کہ چار گوروں سے احتیاط کرنے کی جو نصیحت انہوں نے کی تھی اس پر کیوں عمل نہ کیا اور اب دل جب اپنی من مانیاں کرنے لگا اور کسی طور میرے قابو میں نہیں رہا تھا، بلکہ میرا اپنا ایک بہت پرانا شعر استہزائیہ انداز میں میرا منہ چڑانے لگا تھا۔
میرے قا بو میں رہا ہے دل ِ سر کش یارو 
 اپنی ہی ذات کے دروازے پہ پہرا ہوں میں 
لیکن یہ کل کی بات تھی اب تو ”دل ہے کہ مانتا نہیں“ خیر جب پروفیسر ڈاکٹر محمد حفیظ اللہ کے مطب پہنچا تو ان سے پہلے ان کے کمرے کے دروازے پر لگے ہوئے ایک چارٹ پر نظر پڑی جس پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا۔ دل کے امراض سے بچنے لے لئے ”چ“ سے پرہیز کیجئے۔ اور ”چ“ کی تفصیل یوں دی گئی تھی۔چینی‘ چاول‘چکنائی اور چپاتی۔ والد گرامی آغہ جی سید دلاور شاہ مرحوم و مغفور کی نصف صدی پرانی بصیرت نے آنکھوں میں دھواں بھر دیا،وہی چار گورے چینی، چاول اور ”چ“ کی وجہ سے گھی اور آٹا نے چکنائی اور چپاتی کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اب اپنے مرمت شدہ دل کے ساتھ سوچتا ہوں کاش بر وقت اس پر عمل کیا ہوتا،روداد یہ سوچ کر لکھ دی، شاید کہ اتر جائے کسی دل میں میری بات، فارسی کا ایک روز مرہ ہے ”کہ من نہ کردم شما حذر بکنید“ (میں نے نہیں کی مگر آپ احتیاط کیجئے گا) حالانکہ میں جانتا ہوں کہ ہمارے ہاں دوسروں کے تجربوں سے فائدہ اٹھانے کا سرے سے رواج ہی نہیں ہر شخص ”سولو فلائٹ“ پر نکل کر خود ہی تجربہ کرنا چاہتا ہے دوسروں کی کون سنتا ہے۔
 ناصحا یاد ہے تو نے مجھے رو کا تھا مگر
 عشق میں کون سنے ہے کسی محتاط کی بات