فیرو ز خان نون، سی پیک کے بانی 

بہت شور ہورہاہے سی پیک کے حوالہ سے،ہرکوئی اس کاکریڈٹ لینے کے لئے بڑھ چڑھ کردعوے کررہاہے‘پی ٹی آئی ہو کہ مسلم لیگ ن یا پھر پی پی پی جنرل مشرف ہوں کہ مولانا فضل الرحمن ہر کوئی سی پیک کاسہرا اپنے سرباندھنے کی کوشش کررہاہے لیکن درحقیقت سی پیک کااصل بانی ایک ایسا بدقسمت انسان ہے جس کانام بھی بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں حالانکہ وہ کوئی معمولی انسان نہ تھا اس ملک کاوزیر اعظم تھا اور سب سے بڑھ کرتحریک پاکستان کے اہم رہنماؤں میں شامل تھا درحقیقت سی پیک کا سارا کریڈٹ اس ایک شخص کو جاتاہے کیونکہ اسی کی بدولت گوادر پاکستان کاحصہ بناتھا جی ہاں اس سے قبل گوادر سلطنت اومان کاحصہ چلا آرہاتھا مگر اس شخص کی کامیاب حکمت عملی کی بدولت پاکستان گوادر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا بدقسمتی سے گوادر کے حصول کی دستاویزپر دستخط اور ا س کے اعلان کے محض ایک ماہ بعد جنرل ایوب خان نے ان کی حکومت برطرف کرتے ہوئے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا ہم بات کررہے ہیں پاکستان کے ساتویں وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی بعض لوگ گوادر کے حصول کاکریڈٹ جنرل ایوب خان کو دینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ گوادر کی خریداری اور پاکستان میں شمولیت کا ایوب خان سے کوئی تعلق نہیں یہ کارنامہ متحدہ پاکستان کے اس آخری وزیراعظم ملک فیروز خان نون نے انجام دیا تھا اور جس کا اعلان موصوف نے بہ نفس نفیس ایوب خان کے مارشل لاء سے مہینہ بھر قبل 7 ستمبر1958ء کو ریڈیو پاکستان پر اپنے خصوصی خطاب میں کیا تھا۔ آگے بڑھنے سے پہلے گوادر کا پس منظر جان لیجئے۔

تاریخی طور پر گوادر، بلوچستان کی ریاست قلات کا حصہ رہا ہے۔ 1784ء  میں اومان کے امیر سعید بن احمد کی اپنے بھائی سلطان بن احمد سے ان بن ہو گئی اور موخرالذکر جان بچانے کیلئے قلات کی جانب آ نکلا۔ جہاں والئی قلات میر محمد نصیرخان اول نے غریب الوطن شہزادے کی خوب آؤبھگت کی اور گزارے کیلئے مکران کے ساحل پر 2400 مربع میل پر مشتمل گوادر کا علاقہ سونپ دیا۔ سلطان بن احمد 13 برس تک گوادر میں پناہ گزین رہا۔ 1797ء  میں وطن لوٹا اور بھائی کو اقتدار سے الگ کر کے ریاست اومان کی قیادت سنبھال لی۔ تاہم گوادر کا علاقہ والئی قلات کو واپس کرنے کی بجائے اپنے پاس رکھا۔جہاں کا نظام چلانے کیلئے گورنر اومان سے آتا تھا۔ پاکستان بنا تو اس وقت بھی یہ سلسلہ جاری تھا۔ آزادی کے بعد بلوچستان کی ریاستوں خاران، مکران، لسبیلہ اور قلات نے پاکستان سے الحاق کر لیا، تو گوادر کے لوگوں کو احساس ہوا کہ وہ تو آزاد ہونے سے رہ گئے، انکے حکمراں تو ابھی تک سمندر پار سے آ رہے ہیں پنجاب کے معروف زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والے ملک فیروز خان نون برطانیہ کے پڑھے ہوئے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل وائسرائے کی کونسل کے رکن رہے اور 1945ء  میں لندن میں ہندوستان کے ہائی کمشنر مقرر ہوئے۔ گوادر سے متعلق کاغذات ان کے نوٹس میں اسی زمانہ میں آئے تھے۔ آزادی کے بعد 1956ء  میں پاکستان کے وزیر خارجہ مقرر ہوئے تو گوادر فائل کا عمیق مطالعہ کیا۔ اگلے ہی برس وزیراعظم بن گئے تو بقول کسے ”ابھی یا کبھی نہیں“ والا معاملہ تھا۔ اعلیٰ برطانوی قیادت کے ساتھ ذاتی مراسم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے موصوف نے معاملے کو فاسٹ ٹریک پر ڈال دیا۔ پاکستان کامن ویلتھ (دولت مشترکہ)کاکا رکن تھا اور وزیراعظم نون برطانوی ہم منصب میکملن کے ساتھ ہائی کمشنری کے زمانے سے ہی خاصے بے تکلف تھے۔ چنانچہ انہیں اعتماد میں لے کر معاملے کو آگے بڑھایا۔

اومان کے سلطان سعید بن تیمور نے حامی تو بھر لی، مگر 2400 مربع میل(3840مربع کلومیٹر) کا علاقہ طشتری میں رکھ کر پاکستان کو دینے پر آمادہ نہیں تھے۔ سودے بازی کا عندیہ دیا جا رہا تھا۔ پاکستان نے لاکھ اصرار کیا کہ جب گوادر خریدا ہی نہیں گیا تو واپسی کیلئے رقم کا مطالبہ چہ معنی دارد؟ فیروز خان نون کی سوانح عمر ی میں اس حوالہ سے تفصیل سے لکھاگیاہے وہ لکھتے ہیں ”قیام پاکستان کے بعد یہ مسئلہ اٹھایا گیا اور 1949میں مذاکرات بھی ہوئے جو کسی فیصلہ کے بغیر ختم ہوئے ا سکے بعد اس معاملہ کو یہیں چھوڑ دیاگیا لیکن جب میں 1956میں وزیر خارجہ مقرر ہوا تو میں نے گوادر سے متعلق تمام ریکارڈطلب کیااور اس قضیہ کا بغور جائزہ لینے کے بعد حکومت برطانیہ کے توسط سے بات چیت کا سلسلہ شروع کردیا“فیروز خان نون نے اس قضیہ کی تاریخ میں پہلی بار بہت اہم قانونی نکتہ اٹھا یا کہ گوادر کی حیثیت ایک جاگیر کی سی ہے وہ ریاست کا ایک ایسا علاقہ ہے جسے ایک شخص کو اسلئے تفویض کیاگیاتھاکہ وہ یہاں سے ٹیکس اکٹھا کرکے اپنی گذراوقات کرے اس طرح کی امداد سے اقتداراعلیٰ کی منتقلی کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا ان کااستدلال تھاکہ ہم نے پاکستان میں وہ ساری جاگیریں منسوخ کردی ہیں جوبہت سے لوگوں کو برطانیہ سے خدمات کے صلے میں یا دوسرے سیاسی اسباب کی بناء پر دی گئی تھیں چونکہ گوادر بھی ایک جاگیر تھی اس لئے اس کی تنسیخ بھی کی جاسکتی تھی اور اس علاقہ پر قبضہ بھی ممکن تھا ان کی اس دلیل سے برطانوی حکومت بڑے مخمصے میں پھنس گئی کہ اگر پاکستانی فوج اس علاقہ پر قبضہ کرلیتی ہے تو کیا برطانوی حکومت دولت مشترکہ کے اس ملک پر بمبار ی یا فوج کشی کردیتی جس کی علامتی سربراہ خود ملکہ الزبتھ ہیں گویا اس وقت پاکستان کا دولت مشترکہ میں رہنا سودمندثابت ہوا چھ ماہ کے طوفانی مذاکرات کے بعد 3 ملین ڈالر میں سودا ہوگیا۔ تکنیکی طور پر اس ڈیل کو تحفہ کا نام دیا گیا۔ یعنی اومان نے گوادر تحفتاً پاکستان کے سپرد کر دیا۔

مذکورہ رقم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں سے زیادہ رقم  سر آغا خان نے ادا کی تھی۔فیروخان نون اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ”1958کے موسم سرمامیں جب میں لندن گیا تو ہمارے ہائی کمشنر مسٹر اکرام اللہ نے گوادر منتقلی کی دستخط شدہ دستاویز میر ے حوالہ کی اس وقت مجھے جو خوشی ہوا وہ ناقابل بیان ہے“سابق وزیر اعظم اپنی یاد داشتوں میں لکھتے ہیں کہ گوادرجب تک ایک غیر ملک کے ہاتھ میں تھا مجھے یوں محسوس ہوتاتھاکہ گویا ہم ایک ایسے مکان میں رہتے ہیں جس کاعقبی کمرہ کسی اجنبی کے تصرف میں ہو اوریہ اجنبی کسی بھی وقت اسے پاکستان کے کسی دشمن کو فروخت کرسکتاہے اور وہ دشمن طاقت اس سودے بازی کے عوض بڑی سے بڑی رقم ادا کرسکتی ہے“گوادر کی واپسی کے حوالے سے ریڈیو پاکستان پر اپنی تقریر میں وزیراعظم فیروز خان نون نے کہا تھا: ”گوادر پاکستان کی خیر خواہی اور تعاون کی پالیسی کا پہلا ثمر ہے۔ مجھے پختہ امید ہے اور اس کیلئے دعا گو بھی ہوں کہ ہم اپنے دیگر بین الاقوامی تنازعات بھی امن اور معقولیت کے ساتھ طے کرنے میں کامیاب ہو جائینگے۔ مگر بسا آرزو کہ خاک شدہ، گوادر آبرومندانہ طریقے سے طے پانیوالا شاید ابھی تک واحد کیس ہے جس سے پاکستان کے رقبے میں 2400 مربع میل کا اضافہ ہوا۔گوادرکے حوالے سے اس وقت کی سیاسی قیادت کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ ابتدائی مذاکرات کیساتھ ہی علاقے کے سروے کیلئے امریکی جیالوجیکل سروے کے ساتھ سلسلہ جنبانی کیا اور اس کام کیلئے معروف زمانہ سرویئر رتھ کانڈرک کی خدمات حاصل کیں، جنہوں نے مہینوں کی محنت شاقہ کے بعد رپورٹ دی کہ ہتھوڑے سے مشابہ خاکنائے ایک جدید اور گہرے پانی کی بندرگاہ کیلئے آئیڈیل لوکیشن ہے۔ امریکی سروے ٹیم کی اس رپورٹ کا جائزہ جرمنی اور اٹلی کے ماہرین نے بھی لیا اور ایک صبر آزما سٹڈی کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ گوادر کا پوٹینشل کراچی سمیت خطے کی تمام بندرگاہوں سے کہیں زیادہ ہے یوں 64برس قبل ہی گوادر بندرگاہ کاتصور پیش کردیاگیاتھا یوں آج اگر یہ کہاجائے کہ اس بندرگاہ اور پھر اس کے تناظر میں پورے سی پیک کاکریڈٹ ملک کے اس وزیر اعظم کو جاتاہے جس کو پھر ایک آمر نے اس وقت کے صدر سکندر مرزا کے ساتھ مل کر اقتدار سے محروم کردیا اور اس عظیم انسان اور پاکستانی قوم کے محسن نے پھر بقیہ زندگی گوشہ گمنامی میں گذار دی تھی۔