ہوائی فائرنگ‘غیر روایتی اقدامات کی ضرورت

اُنتیس اپریل دوہزاربائیس: خیبرپختونخوا پولیس کی جانب سے صوبے کے تمام اضلاع میں جامع مساجد کے خطیب حضرات کو ہدایات جاری کی گئیں کہ ’جمعۃ الوداع (ستائیس رمضان المبارک)‘ کے اجتماعات میں ہوائی فائرنگ کے موضوع پر اظہار خیال کریں اور اِس کے بارے میں عوامی شعور اُجاگر کریں تاکہ آنے والی چاند رات پر ہوائی فائرنگ سے اجتناب کیا جائے جو عموماً اور خصوصاً چاند رات جیسے مواقعوں پر اظہار مسرت کیلئے کی جاتی ہے۔ مسجد و منبر سے قوم کے نام یہ پیغام روایتی انداز میں جاری ہوا لیکن اِس پر عمل درآمد ہونے کے امکانات کم ہیں‘ جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہر ضلع اور تحصیل کی سطح پر پولیس حکام کو یہی پیغام نماز جمعہ کے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے بذات خود دینا چاہئے تھا اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ عوام کے سامنے ہوائی فائرنگ جیسے قاتل رجحان جس میں کوئی اندھی گولی کسی بے گناہ کی جان لے سکتی ہے اور تہوار کے موقع پر کسی ہنستے بستے گھرانے کی خوشیاں غم میں تبدیل ہو سکتی ہیں اِس لئے انسانی جان کی حرمت اور قانون پر عمل درآمد بہرصورت ہونا چاہئے اور اگر احتیاط‘ شعور و احساس ِذمہ داری سے کام لیا جائے تو ایسے سنگ دل عناصر کے خلاف سخت قانونی کاروائی  کی ضرورت ہے۔ اصل بُرائی کی جڑ اسلحہ ہے اور اسلحے سے پاک معاشرہ ہی ہر کس و ناکس کے لئے جانی مالی‘ ذہنی و جسمانی سکون‘ سلامتی و تحفظ کا باعث بن سکتا ہے۔ہوائی فائرنگ کے لحاظ سے پشاور خیبرپختونخوا کا سب سے ”غیرمحفوظ علاقہ“ قرار دیا جا سکتا ہے اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پشاور شہر کے اَطراف میں ایسے دیہی علاقے بھی ہیں جہاں  اس حوالے سے کوئی کاروائی شاذ و نادر ہی کی جاتی ہے۔۔ اِن علاقوں سے ہوائی فائرنگ صرف تہواروں کے مواقعوں پر نہیں بلکہ عموماً ہوتی رہتی ہے لیکن متعلقہ ادار ے اس حوالے سے سستی کا مظاہرہ کرر ہے ہیں۔دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ  قانون نافذ کرنے والے مرکزی اِدارے یعنی محکمہئ پولیس کی اَفرادی قوت اور وسائل محدود ہیں جبکہ آبادی زیادہ اور اِس کے بڑھنے کی شرح بھی زیادہ ہے اور چونکہ مالی وسائل کم ہیں اِس لئے ٹیکنالوجی کے استعمال سے ایسے عمومی جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ دوسری اَہم بات یہ ہے کہ صرف ’ہوائی فائرنگ‘ ہی نہیں بلکہ دیگر کئی عمومی جرائم (عوامل) بھی معاشرے کیلئے ’یکساں خطرہ‘ ہیں لیکن اُن کے انسداد کیلئے ہوائی فائرنگ کی طرز پر منظم مہمات نہیں چلائی جاتیں‘ آخر کیوں؟ پشاور کے اطراف سے ہونے والی فائرنگ کی اندھی گولیاں آبادی میں ہی  گرتی ہیں اور اِس لینڈنگ کی وجہ سے ہر تہوار یا تو غمگین و مغموم گزرتا ہے یا پھر شہریوں کو مستقل تشویش و پریشانی رہتی ہے۔ خلاصہئ کلام یہ ہے کہ پشاور کیلئے ہر تہوار اپنے ساتھ خوشی یا مسرت نہیں بلکہ تشویش لاتا ہے یعنی ایک ایسی تشویش جو ’جان لیوا‘ ہے۔ نجانے اِس سال ہوائی فائرنگ سے کون سے خاندان اپنے عزیزوں سے بچھڑیں گے؟ (خدانخواستہ) کتنے پشاوریوں کی عید افسردہ گزرے گی؟ پشاور سمیت خیبرپختونخوا ’اسلحے اور بارود کے ڈھیر‘ پر کھڑا ہے۔ پشاور سمیت خیبرپختونخوا میں ’مؤثر پولیسنگ‘ کی اشد ضرورت ہے۔ پشاور سمیت خیبرپختونخوا کو اسلحے کے پاک کئے بغیر ’ہوائی فائرنگ‘ روکنا ممکن نہیں اور نہ ہی اِس گناہ و جرم کا علاج ممکن ہے! تصویر کا بظاہر روشن پہلو یہ ہے کہ پشاور و خیبر کی ضلعی انتظامیہ نے 390 رجسٹرڈ اسلحہ ڈیلرذ کے پاس موجود ذخیرے اور اِن کے کاروباری معمولات و معاملات کی مبینہ چھان بین کی ہے جس دوران بڑی مقدار میں غیرقانونی اسلحہ برآمد کر کے مقدمات کئے گئے ہیں لیکن کاروبار وقتی سربمہر کرنے اور واجبی جرمانے بے سود ہیں! علاؤہ ازیں ملحقہ (قبائلی) اضلاع سے پشاور اسلحے کی نقل و حمل کی روک تھام کے چیک پوسٹوں پر خصوصی اہلکار تعینات کرنے کا اعلان بھی کیا گیا جبکہ ایسے اہلکار صرف روایتی نہیں بلکہ پشاور داخلے کے غیرروایتی راستوں پر بھی مستقل تعینات رہنے چاہیئں بصورت دیگر ایسی کوششوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ ہوائی فائرنگ کی حوصلہ شکنی صرف تہوار سے چند روز قبل کرنا کافی نہیں! روایتی  اجلاس‘ روایتی  الفاظ پر مبنی بیانات اور تصاویر جاری کرنے سے کارکردگی کا پیٹ تو بھر جاتا ہے لیکن اصلاحات کی طلب اور بھوک نہیں مٹتی۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہوائی فائرنگ کرنے والے پہلے ہی گولیوں کا ذخیرہ کر لیتے ہیں اور کوئی بھی شخص چاند رات اسلحہ یا گولیاں خریدنے بازار نہیں جاتا؟۔