نصف صدی تک چترال کی سیاست پر راج کرنے والے شہزادہ محی الدین کی وفات کے ساتھ ایک عہد زرین کا اختتام ہوا۔ چترال کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک مجذوب شخص کے ہاں پیدا ہونے والا محی الدین قسمت کا دھنی نکلا۔انہیں جو شہرت اور عزت ملی۔ وہ کٹور خاندان کے کسی دوسرے فرد کو دو سو سالہ حکمرانی کے دور میں نہیں ملی۔ شہزادہ محی الدین نے اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن اور جامعہ پشاورسے پوسٹ گریجویشن 60کے ابتدائی عشرے میں مکمل کی اور ڈپٹی کمشنر اپر چترال مقرر ہوئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست میں قدم رکھا تاہم بعد میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ چار مرتبہ چترال سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے وہ وزیرمملکت برائے سیاحت اور نگراں صوبائی وزیر برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے طور پر خدمات انجام دیں، کئی پارلیمانی کمیٹیوں کی سربراہی کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ وہ دو مرتبہ ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین اور ایک مرتبہ ضلع ناظم بھی رہے۔ شہزادہ محی الدین سیاست میں شائستگی، بردباری، تحمل اور احترام پر یقین رکھتے تھے۔ قدرت نے انہیں بلاکا حافظہ عطا کیا تھا۔ سردار مہتاب احمد خان کے بعد وہ صوبے کے دوسرے سیاست دان تھے جنہیں اپنے حلقہ نیابت کے چپے چپے سے واقفیت سرکردہ لوگوں کے نام یاد تھے۔ارندو سے بروغل تک چھ سو کے قریب چھوٹے بڑے دیہات کے مسائل اور مشکلات سے واقف تھے۔ سیاسی اختلافات کے باوجود کسی کی دل آزادی اور عزت شکنی نہیں کی۔ اپنے کٹر سیاسی مخالفین سے بھی بڑے تپاک سے ملتے اور مخالفوں کو بھی اپنا گرویدہ بنانے کا فن جانتے تھے۔ خیبر پختونخوا کے سیاسی منظر نامے میں شہزادہ محی الدین کے قد کاٹھ کے معدودے چند ہی اکابرین پائے جاتے ہیں۔ قومی ایوانوں میں بھی ان کا کردار انتہائی جاندار اور فعال رہا۔قومی سیاست میں اگر دس غیر متنازعہ لیڈروں کا نام گنوایا جائے تو ان میں شہزادہ محی الدین کا نام سرفہرست ہوگا۔وہ خود بیوروکریٹ رہے اس لئے بیوروکریسی کو اپنے اوپر حاوی ہونے نہیں دیا۔وہ لگی لپٹی کے بغیر سیدھی بات کرنے کے عادی تھے۔ شہزادہ محی الدین کو اپنی زبان، علاقے، تہذیب اور ثقافت سے گہری محبت تھی۔انہوں نے زبان و ثقافت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ ثقافتی محفلوں میں خود شرکت کرتے اور فنکاروں کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ اگرچہ ان کا تعلق لوئر چترال کے علاقہ دروش سے تھا تاہم ان کی سیاست کا محور ہمیشہ اپر چترال رہا۔ ان کی کامیابیوں میں بھی بالائی چترال کا اہم کردار رہا ہے۔انہوں نے اپنے دور افتادہ اور پسماندہ علاقے کی ترقی کیلئے ہمیشہ مخلصانہ کوششیں کیں۔شہزادہ محی الدین کی ایک غیر معمولی خوبی یہ تھی کہ وہ لوگوں سے ملنے میں کبھی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ جب وہ وفاقی وزیرمملکت کے عہدے پر فائز تھے تو ان کے دفتر میں چترال کے طلبا، محنت کشوں اور عام لوگوں کو ڈیرا لگارہتا تھا۔ ان کی دفتر میں چائے اور کھانوں سے تواضع کی جاتی تھی لوگ اپنے انفرادی اور اجتماعی مسائل لے کر ان کے پاس جاتے وہ کبھی کسی کو مایوس نہیں لوٹاتے تھے۔ شہزادہ محی الدین نے چند سال قبل بینائی کمزور ہونے کی وجہ سے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی۔ ان کے فرزند شہزادہ افتخار الدین رکن قومی اسمبلی رہے اور دوسرے فرزند شہزادہ خالد پرویز حال ہی میں تحصیل دروش کے چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔ شہزادہ محی الدین کی وفات سے خیبر پختونخوا خصوصاًچترال کی سیاست میں جو خلاء پیدا ہوا ہے۔ وہ شاید مدتوں تک پر نہیں ہوسکے گا۔ ایسی شخصیات جو خلوص نیت کے ساتھ کسی بھی شعبے میں خدمات کے ذریعے نام کما لیتے ہیں یقینا کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اور جہاں تک شہزادہ محی الدین کی بات ہے تو انہوں نے عملی طور پر لوگوں کو خدمت اور سیاست کو یکجا کرکے دکھایا۔