آبی قلت کے بحران کا خدشہ

نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور محکمہ موسمیات نے عید الفطر کے دوران ملک بھر میں بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے حوالے سے الرٹ بھی جاری کیاگیا ہے۔ رواں موسم بہار میں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے خشک سالی اورپانی کی شدید کمی کے خطرات نے سراٹھالیاہے۔ پشاور سمیت ملک کے میدانی علاقوں میں اپریل میں درجہ حرارت چالیس سینٹی گریڈ سے تجاوز کرگیا ہے۔گلگت بلتستان، سوات، ہزارہ اور ملاکنڈ ڈویژن کے بالائی علاقوں کاغان، ناراں، سوات، کالام، بحرین، اپر دیر اور چترال میں موسم سرد رہنے کی وجہ سے برف پگھلنے کے عمل میں تاخیر ہوئی ہے جس کی وجہ سے آبی ذخائر میں پانی کی سطح انتہائی کم رہ گئی ہے۔ پانی کے بہاؤ کے اعدادوشمار کے مطابق دریائے سندھ میں اپریل کے آخر تک پانی کا بہاؤ 32300کیوسک تھا جبکہ اس کادس سالہ اوسط 37000کیوسک رہا ہے۔
دریائے کابل میں 14800، دریائے جہلم میں 28800کیوسک تھاجو پانی کے ذخیرہ میں ایک تہائی کمی کی نشاندہی کرتی ہے۔ تمام دریاؤں میں اس وقت بہاؤ مجموعی طورپر 87800 کیوسک ہے جبکہ گذشتہ برس 116000 کیوسک تھا اور دس سالہ اوسط ایک لاکھ 56000کیوسک رہاہے اس سے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ کیاجاسکتاہے بڑے آبی ذخائر سے پانی کے اخراج کاجائزہ لیا جائے تو تربیلہ میں دس سالہ اوسط اخراج 37200کیوسک روزانہ رہا ہے جبکہ اس وقت اخراج محض 32000 کیوسک ہے حالانکہ گذشتہ سال انہی دنوں میں اخراج 35000کیوسک تھاتربیلہ ڈیم میں پانی اس وقت انتہائی کم سطح پرہے ڈیم کی کم سے کم سطح 1392فٹ ہے جبکہ پانی کی سطح بھی اس وقت یہی ہے حالانکہ ڈیم کی گنجائش 1550فٹ ہے اسی طرح منگلا کی کم سے کم سطح 1050ہے اورپانی ا س وقت اسی سطح پرہے جبکہ کل گنجائش 1242فٹ ہے۔
ڈیموں میں پانی کی سطح گرنے کی وجہ سے ہائیڈرو پاور جنریشن میں بھی نمایاں کمی آئی ہے اور ملک میں بجلی کا شارٹ فال سات ہزار میگاواٹ سے بھی تجاوز کرگیا ہے جس کی وجہ سے خیبر پختونخوا سمیت پورے ملک میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ شروع کی گئی ہے۔ گرمی کی شدت بڑھنے کے ساتھ بجلی کی آنکھ مچولی نے شہریوں کو بے حال کردیا ہے۔ حکومت فوری طور پر فرنس آئل اور گیس منگواکر بجلی کی ضرورت پوری کرنے کیلئے کوشاں ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ وافر آبی ذخائر کے باوجود گذشتہ پچاس سالوں میں ڈیم بنانے پر کسی حکومت نے توجہ نہیں دی۔ حالانکہ دریائے سرن، دریائے کنہار، دریائے سوات، دریائے پنج کوڑہ، دریائے چترال اور دریائے کرم پر چھوٹے ڈیم بناکر بیس ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جو بجلی کی قومی ضروریات کیلئے کافی ہے۔
 صوبے کے جنوبی اضلاع میں بارانی ڈیم بناکر بھی بارش کے پانی کو ذخیرہ کیاجاسکتا ہے جس سے نہ صرف سستی بجلی پیدا ہوگی بلکہ لاکھوں ایکڑ غیر آباد اراضی کو سیراب کرکے زرعی پیداوار میں بھی خود کفالت حاصل کی جاسکتی ہے۔ بارشوں میں کمی کی ایک وجہ عالمی حدت میں اضافہ ہے لیکن قدرتی ماحول کو تباہ کرنے کی دانستہ انسانی کوششوں نے بھی صورتحال کو گھمبیر بنادیا ہے۔ ہمارے ملک کے شمال مغربی علاقوں اور چند جنوبی اضلاع میں جنگلات کی بے دریغ اور غیر قانونی کٹائی جاری ہے۔ جس کی وجہ سے نایاب جنگلی حیات معدوم ہورہی ہے اور تباہ کن سیلاب آرہے ہیں۔ پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے حکومت کو جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔تاکہ قدرتی ماحول کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ آلودگی، آبی قلت اور قحط کے خطرات کو ٹالا جاسکے۔