تمام تر خدشات اور خطرات کے باوجود یہ امر خوش آئند ہے کہ گذشتہ ایک عشرہ کے دوران صوبہ کے جنگلاتی رقبہ میں 846مربع کلومیٹر کااضافہ ہوچکاہے بتایاجاتاہے کہ یہ اضافہ 2007سے 2018ء کے درمیانی عرصہ میں ریکارڈ کیا گیا ہے عرصہ چاہے کوئی بھی ہو بس یہ خبر ہی دل خوش کرنے کیلئے کافی ہے کہ انتہائی نامساعد حالات اور ٹمبر مافیا کی منہ زوریوں کے باوجود جنگلات کے رقبہ میں اضافہ ہواہے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلہ کو جاری رکھاجائے اور اس مقصدکیلئے جنگلات کی حفاظت کیلئے بھرپور اقدامات کیے جائیں صوبہ میں سیاحتی سیزن شروع ہونے کوہے اورہمارے ہاں بدقسمتی سے اسی سیزن میں سیاحوں کی غفلت اورلاپرواہی کے باعث جنگلات میں آتشزدگی کے واقعات کے باعث قیمتی نقصان اٹھاناپڑتاہے محکمہ جنگلات کی ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ کے سیاحتی مقامات پر گذشتہ دوسال کے دوران ہونے والی آتشزدگی سے مجموعی طورپر اٹھارہ لاکھ سے زائد درخت اورپودے متاثرہوئے جس سے کروڑوں روپے کانقصان اٹھاناپڑاہے۔
سیاحتی سیزن میں غفلت اورلاپرواہی بدولت 2019-20میں آتشزدگی کے کل 139واقعات پیش آئے جن سے مجموعی طورپر 1300ہیکٹر رقبہ متاثر ہوا اور کل 14لاکھ 64ہزار سے زائد پودے اوردرخت متاثرہوئے نقصان کا تخمینہ تین کروڑ روپے لگایاگیاکل انتیس ایف آئی آرز درج ہوئیں جبکہ اکتالیس کاروائیاں کی گئیں اسی طرح گذشتہ مالی سال کے دوران تیس مقامات پر آتشزدگی کے باعث 870ہیکٹررقبہ پر جنگلات متاثرہوئے جس کے باعث چارلاکھ دوہزار سے زائد درخت اور پودے جل کر خاکستر ہوئے چھ ایف آئی آرز ہوئیں اور 29کاروائیاں کی گئیں اب رواں سیزن میں ان واقعات کے اعادے سے بچنے کیلئے بھرپور آگہی مہم جاری ہے صوبائی حکومت کی طرف ہدایات کے بعدصوبہ بھر بالخصو ص ہزارہ و ملاکنڈڈویژن کے تمام اضلاع میں مہم جاری ہے سوشل میڈ یا کے ساتھ ساتھ مساجد،مدارس،سکولوں،حجروں اوردیگر پبلک مقامات پر بھی جاری ہے پندرہ مئی سے پندرہ جولائی تک کے سیاحتی سیزن میں سیاحوں کی غفلت سے لگنے والی آگ کے حوالہ سے مقامی آبادی کو آگہی دی جارہی ہے۔
ماضی میں بھی اس قسم کی مہم چلائی جاتی رہی ہے تاہم اس بار مہم کی کامیابی کے امکانا ت اس لیے زیادہ ہیں کہ ایک طرف محکمہ جنگلات کے سیکرٹری عابد مجید کی صورت میں ایک فعال افسر ہیں جو اس وقت اس مہم میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں دوسری طرف ملاکنڈ ڈویژن میں شوکت علی یوسفزئی جیسے سیما ب صفت افسر کمشنر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں جن کاتعلق خود بھی سوات سے ہے اس لیے وہ پہلے روز سے ہی جنگلات کی حفاظت کیلئے پوری طرح سے سرگرم عمل ہوچکے ہیں جنگلات کی حفاظت یقینا ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہے اس معاملہ میں سب کو اپنا کردار ادا کرناہوگاجہاں تک محکمہ جنگلات کاتعلق ہے تو اس کے اپنے مسائل ہیں محکمہ جنگلات کااس وقت سب سے بڑا مسئلہ عملہ اور وسائل کی بے انتہا کمی ہے رولز کے مطابق پانچ سو ایکٹر پرمشتمل جنگل کی نگرانی کیلئے ایک فارسٹ گارڈ ہوناچاہئے مگر ہمارے ہاں پچیس سے ستائیس سو ایکڑ جنگل کیلئے ایک فارسٹ گارڈ ہوتاہے۔
ہمارے ہاں جو ہارڈ سپاٹس کہلائے جاتے ہیں وہاں مخصوص موسم میں جنگلات کوشدید خطرات لاحق ہوتے ہیں کیونکہ مقامی آبادی کو سخت ترین سردیوں میں جلانے کیلئے لکڑی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ان علاقوں میں بجلی یا گیس کی سہولیات نہیں ہوتیں جنگلات کو نقصان پہنچانے میں ایک اور اہم عامل مقامی تنازعات بھی ہیں مالکان جنگلات کو تنگ کرنے کیلئے قابضین بسا اوقات درختوں کو آگ لگا دیتے ہیں یا پھردرخت کاٹ دیتے ہیں اس طرح وہ مالکان کو چیلنج کرتے ہیں کہ اپنی اراضی پر آکر تودکھاؤجب کبھی کہیں درختوں کے دشمن کاروائی کرتے ہیں تو محکمہ جنگلات کے اہلکار ڈیمج رپورٹ (Damage report)کی صورت میں ایف آر آئی کااندراج کرتے ہیں موقع پر ملزمان کو جرمانہ بھی کردیا جاتاہے اس کے بعد ان کاچالان مقامی عدالت میں پیش کیاجاتاہے یوں ملزمان کامعاملہ پھر عدالت کے پاس آجاتاہے جہاں سے اکثر کیسوں میں انتہائی کم جرمانے کرکے ملزمان کورہا کرانے کے حوالہ سے شکایا ت عام ہیں۔
محکمہ جنگلات کے ذمہ داروں کے مطابق ملزمان کو سزا ان کی سفارشات کے تحت نہ ملنے سے پھر درختوں کے دشمنوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے بسا اوقات غیر قانونی طورپر برآمد کی گئی لکڑی بھی ملزمان کو واپس کردی جاتی ہے جنگلات کے تحفظ کے لئے بہت سے ”موثر قوانین“موجود ہے لیکن اس پر عملدرآمد کی کمی ہے جس کی وجہ سے ٹمبر مافیا روز بروز طاقتور ہو تا جارہا ہے اور قانون کمزور اس حوالہ سے ماہرین کہتے ہیں کہ جنگلات کی لکڑی کی نقل و حمل کے”پرمٹوں“ پر پابندی عائد کی جائے اور قانونی طور پر بھی اس کے کٹائی پر پابندی لگائی جائے جنگلات کے تحفظ کے لئے بیس سالہ ایمرجنسی لگائی جائے، تاکہ جنگلات کے رقبے میں اضافہ کیا جا سکے۔ حکومت لوگوں کے آگاہی کے لئے ایک موثر مہم چلائے، لوگوں کو جنگلات کے”فوائد“ سے باخبر کیا جائے ان میں شعور پیدا کیاجائے کہ جنگلات کی کٹائی سے کون کو نسی تباہی آسکتی ہے۔
ان علاقوں میں بائیوگیس پلانٹس کاکلچر متعارف کرانے کیلئے بھی حکومت کو فوری طور پر منصوبے لانے ہونگے ان علاقوں میں درختوں کی مخصوص اقسام متعارف کرنے پر بھی توجہ ضروری ہے سوختنی لکڑی کیلئے مخصوص قسم کے پودے لگائے جاسکتے ہیں جن میں روبینیا،ایلینکس،بکائن،سفیدہ وغیرہ اہم ہیں جو تیزی سے بڑھوتری کے حامل ہیں کسی زمانے میں جنگلات کی سائنٹیفک مینجمنٹ کی جاتی تھی جس کی وجہ سے صورت حال قابو میں رہتی تھی مگر جنرل پرویز مشرف کے دور میں یہ سسٹم ختم کردیا گیا جس سے کئی قسم کی قباحتوں نے جنم لیا ظاہرہے کہ لکڑی کو انسان کی زندگی سے نکالاتونہیں جاسکتا البتہ لکڑی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے میکنزم کے تحت ہی کام ہوناچاہیے جو سائنٹیفک مینجمنٹ کی صورت میں ہواکرتاتھا پی ٹی آئی کی حکومت نے 2015ء میں یہ سسٹم بحال تو کردیاہے تاہم اب اس کو پوری طرح سے فعال کیاجاناضروری ہے تمام پہاڑی علاقوں میں وافر مقدار میں پانی کے ذرائع موجود ہیں اور وہ صرف ضائع ہی ہورہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان آبی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ان سے بجلی پیدا کی جائے۔ اس طرح یہ ہوگا کہ جو درخت ابھی صرف ایندھن کیلئے کاٹے جارہے ہیں، ان کی کٹائی بند ہوگی، جبکہ جو نئے درخت لگائے جا رہے ہیں، وہ صوبے میں سبزہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔