بامقصد تہوار

پشاور کے سرتاج روحانی‘ علمی و ادبی اور سیاسی گھرانے کے بزگوار پیر طریقت سیّد محمد امیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ اپنے خطبات اور محافل میں زندگی کو بامقصد بسر کرنے کی تلقین فرماتے بالخصوص ’عیدالفطر‘ جیسے تہوار یا دیگر خصوصی مواقعوں پر آپؒ کی وعظ و نصیحت کا خلاصہ ”فرائض کا اہتمام‘ سنتوں کی اتباع اور تقویٰ“ سے متعلق ہوتا۔ آپ چاہتے تھے کہ ہر شخص اپنی زندگی کے ہر ایک لمحے کا احتساب اور حساب کرے۔ تفکر سے کام لے۔ سوچ سمجھ کر زندگی بسر کرے اور اگر زندگی بامقصد اور تعمیری انداز میں منائی جائے تو اِس سے ہماری زندگیوں میں مثبت تبدیلی آئے گی اور اگر تہواروں کو شعوری طور پر منانے اور مختلف انداز میں ’یادگار‘ بنانے کی کوشش کی جائے تو اِس سے انفرادی و اجتماعی سطح پر خیر و اصلاح جیسے ثمرات بھی حاصل ہوں گے۔ امیرالمومنین سیّدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہے کہ ”مومن کے لئے اُس کی زندگی کا وہ ہر دن عید ہے‘ جس دن اُس سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو۔“
 اسلامی تہواروں کے حقیقی تصور اور مقصد کے حصول کیلئے عہد کیا جا سکتا ہے کہ اِس مرتبہ عیدالفطر پر کم سے کم ’چند امور کی انجام دہی کا بطور خاص خیال رکھا جائیگا‘ عید کے دن صاف‘ پاک و پاکیزہ لباس اور خوشبو (پرفیوم) کا استعمال بہترین اعمال و معمولات میں سے ہیں۔ حدیث شریف ہے کہ ”اگر کوئی شخص (مرد یا عورت) عید کے دن نئے کپڑوں کی مالی سکت نہ رکھتے ہوں تو پہلے سے استعمال شدہ کپڑے اچھی طرح دھو کر استعمال کریں۔“ یہ شرعی نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ خواتین کے لئے خوشبو لگانے کی شرائط مرد سے مختلف ہیں اور خواتین کو ”تیز خوشبو“ لگانے کی اجازت نہیں۔ اِسی طرح مردوں کیلئے ریشمی کپڑے اور زیورات پہننے کی ممانعت ہے۔ عیدالفطر کی نماز ادا کرنے کیلئے پیدل جایا جائے یا مسجد کے کچھ فاصلے تک گاڑی میں سفر کرنے کے بعد سنت ادا کرنے کی نیت سے چند قدم ہی سہی لیکن لازماً پیدل چل کر جایا جائے۔ 
اِسی طرح نماز عید کی ادائیگی کیلئے گھر سے نکلنے سے قبل کچھ میٹھا (بہتر ہے کہ کھجوریں) کھائی جائیں۔ تسلی کر لیں کہ عید الفطر کی نماز ادا کرنے سے قبل صدقہ فطر اَدا کر دیا گیا ہے اگر نہیں کیا تو ساری زندگی ساکت (ختم) نہیں ہوگا بلکہ واجب الادأ رہے گا۔ صدقہئ فطر کی کم سے کم شرح کی بجائے سے زیادہ سے زیادہ شرح سے فطرانہ اَدا کر کے غریبوں کو بھی عید کی خوشیوں میں یکساں شریک کریں۔ ذہن نشین رہے کہ اسلام میں کسی بھی خصوصیت یا تہوار کا تصور انفرادی خوشی کا اظہار و اہتمام نہیں بلکہ تہوار بامعنی ہیں اور یہ خوشی کے اجتماعی اظہار کے مواقع ہیں اور اِس لحاظ سے عید محض عید نہیں بلکہ اگر اسے سمجھا جائے تو اِس تہوار کی معنویت اور مقصدیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ نماز عید کی ادائیگی کیلئے کسی ایسے مقام کا انتخاب کیا جائے جہاں عید کھلے آسمان کے نیچے ادا کرنے کا انتظام ہو‘ بہ امر مجبوری الگ بات ہے۔
 حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید کی نماز ہمیشہ کھلے آسمان تلے ادا فرمائی جبکہ ایک مرتبہ بارش کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد کے اندر (چھت تلے) عید کی نماز اَدا کی تھی۔ عید کا تہوار تحفے‘ تحائف (عیدی)‘ اِہل و عیال اور پڑوسیوں سے ملاقات کا موقع ہے۔ عمومی معمولات میں جب عزیزواقارب سے ملنے ملانے کی فرصت نہیں رہتی تو عید کے موقع پر ایسی ملاقاتوں کا بالخصوص اہتمام کیا جانا چاہئے۔ رمضان المبارک کے بعد شروع ہونے والے اسلامی مہینے شوال المعظم کے 6 روزے رکھنے کی نیت ابھی سے کر لیں۔
 شوال کے روزے عید الفطر کے دوسرے دن سے ماہئ شوال المکرم کے دوران کبھی بھی رکھے جا سکتے ہیں اور اِن کا اہتمام لگاتار بھی کیا جا سکتا ہے اور یہ روزے مسلسل (یکے بعد دیگرے) یا ایام کے وقفے سے بھی رکھے جا سکتے ہیں تاہم چھ روزوں کی گنتی پوری کرنا سنت ہے۔ حدیث شریف ہے کہ ”جس نے پورے رمضان المبارک کے روزے رکھے اور پھر شوال کے چھ دن بھی روزہ دار رہا‘ تو اِسے پورے سال کے روزے رکھنے کا ثواب ملے گا۔“ رمضان المبارک کی طرح سال کے دیگر مہینوں میں بھی عبادات بالخصوص قرآن شریف پڑھنے کی ابھی سے نیت کر لیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جس طرح رمضان المبارک میں عبادت گاہیں آباد رہیں بالکل اِسی طرح سال کے دیگر ایام میں بھی عبادات کا ذوق و شوق برقرار (ساری زندگی قائم و دائم) رہے۔