ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق صوبائی دارالحکومت پشاورمیں رمضان المبارک کے دوران جائیداد کے تنازعات،معمولی تکرار، بچوں کی لڑائی جھگڑوں، دیرینہ دشمنی اور غیرت کے نام پر خواتین اور بچوں سمیت57افراد کو قتل کیاگیا۔سنگین جرائم کی شرح میں اضافے کو عموماًقانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کوتاہی سے تعبیر کیاجاتا ہے۔ ماہ صیام ہمیں صبر، برداشت، رواداری، احترام انسانیت، دوسروں کے دکھ، پریشانی اور بھوک پیاس کا احساس کرنے کا درس دیتا ہے۔نماز، روزہ، زکواۃ اور دیگر عبادات کا مقصد تقویٰ اختیار کرنا، اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنا اور گناہوں سے بچنا ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں رب ذوالجلال نے ان عبادات کے مقاصد واضح کئے ہیں کہ ”بے شک نماز بے حیائی کے کاموں اور منکرات سے روکتی ہے۔اسی طرح روزے کے حوالے سے قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”بے شک تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے کی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بنو“ روزہ رکھنے کے باوجود اگر انسان میں تقویٰ اور خوف خدا پیدا نہیں ہوتا تو اس کا روزہ خود کو بھوکا پیاسا رکھنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
زہد و تقویٰ، برائیوں سے دوری، رضائے الہٰی کے حصول اور صبرواستقامت کے مہینے میں بھی اگر لوگ قتل جیسے سنگین جرائم سے باز نہیں آتے تو اس کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ معاشرے سے برداشت،روادای، عفودرگذر اور صبرواستقامت کا مادہ ختم ہوچکا ہے۔ ہم مادیت پرست بن گئے ہیں۔ معمولی باتوں پر ہم آپے سے باہر ہوجاتے ہیں چھوٹے چھوٹے مفادات کے حصول اور انا کی تسکین کے لئے قتل جیسے سنگین جرم سے بھی باز نہیں آتے۔ ماہ صیام کے دوران ضلع پشاور میں جن57افراد کا قتل ہوا ہے وہ اپنے خاندانوں کے کفیل تھے۔ اور وہ سارے خاندان دربدر اور تباہ وبرباد ہوگئے۔
قتل،ڈکیتی، رہزنی اور دیگر سنگین جرائم کو روکنا اگرچہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔لیکن دنیا کے کسی بھی معاشرے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے جرائم کا مکمل خاتمہ نہیں کرسکتے۔ جرم و سزا انسانی معاشرے کا ازل سے حصہ رہا ہے اور ابد تک رہے گا۔ تاہم جامع حکمت عملی، چابکدستی، بہتر انوسٹی گیشن اور قرار واقعی سزاؤں کے ذریعے جرائم کی شرح کم کی جاسکتی ہے۔ اور یہ مقصد صرف پولیس، قانون نافذ کرنے اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے ذریعے حاصل نہیں کیاجاسکتا۔ من حیث القوم پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ برائی کو روکنے اور نیکی کو فروغ دینے میں اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔
غلط کام ہوتا دیکھیں تو اسے روکنے کی کوشش کریں‘خاموشی اختیار کرنے کے بجائے ان کی نشاندہی کریں خامیوں اور خرابیوں پر پردہ ڈال کر چھپانے کے بجائے ان کے تدارک اور سد باب کی سوچ پیدا کریں۔اگر معاشرہ فعال ہوگا تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بیدار معاشرے کے خوف سے فعال رہیں گے اور جرائم کی شرح میں کمی آئے گی۔یعنی ایک طرح سے یہ کسی ادارے یا تنظیم سے زیادہ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ جرائم کی بیخ کنی اور روک تھام میں اپنا کردار ادا کرے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہر فرد اس میں اپنا حصہ ڈالے۔