پشاور کہانی: خاص ضرورت

وفاقی اور صوبائی فیصلہ سازوں کی ’ترقیاتی حکمت عملیاں‘ سوچ بچار اور ترجیحات‘ صوبائی حکومت پشاور کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ضروریات کے مطابق اور یہاں کے موجودہ اور مستقبل قریب و بعید کے مسائل کے حل کیلئے کافی نہیں۔ اِس جانب متوجہ کراتے ہوئے ایک عام شہری ”جاوید اقبال سکنہ یونیورسٹی ٹاؤن پشاور“ نے عدالت ِعالیہ (پشاور ہائی کورٹ) سے رجوع کیا ہے اور ایک بہت ہی ”خاص اور اہم ضرورت“ کی نشاندہی کی ہے جس کا براہ راست تعلق پشاور کے حال و مستقبل سے ہے۔ مطالبہ یہ ہے کہ ”پشاور میں نیا ہوائی اڈہ (اِنٹرنیشنل اِئرپورٹ)“ تعمیر ہونا چاہئے۔ درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ اِئرپورٹ کا ’رن وے‘ چھوٹا ہے جس کی وجہ سے جدید مسافر طیارے نہیں اُتر سکتے جو زیادہ تعداد میں مسافروں کو لانے لیجانے کیلئے استعمال ہوتے ہیں اور اِس بنا پر اِن کے سفری اخراجات بھی نسبتاً کم ہوتے ہیں۔ پشاور (خیبرپختونخوا) سے سفر کرنے والوں میں اکثریت مزدور پیشہ افراد کی ہوتی ہے جبکہ سارا سال عمرہ اور سال میں ایک مرتبہ حج کی ادائیگی کیلئے سفر کرنے والے زائرین کی بڑی تعداد کو بہتر ائرپورٹ کے ذریعے سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں۔
 ایک نئے ائرپورٹ کی تعمیر کا مطلب ایک نئے شہر کی بنیاد رکھنے جیسا عمل بھی ہوگا کہ ائرپورٹ کا مطلب پہلے سے موجود رہائشی و تجارتی سہولیات میں وسعت بھی ہوتی ہے۔ ایک اور اہم بات پشاور سے زیادہ بڑے پیمانے پر سبزی‘ پھل اور دیگر خوردنی اجناس و اشیا کی برآمدات (نقل و حمل) کیلئے بھی نیا ائرپورٹ ضروری ہے جس میں کولڈ سٹوریجز اور سٹوریجز کی گنجائش پہلے ہی سے زیادہ رکھی جائے اور اِس میں وقت کے ساتھ وسعت کے امکانات بھی رکھے گئے ہوں۔ اگرچہ ایسے بہت سے پہلوؤں کا ذکر درخواست میں نہیں کیا گیا اور نہ ہی موجودہ ’پشاور ائرپورٹ‘ کو باقی رکھنے کا ذکر کیا گیا ہے لیکن اگر اندرون ملک پروازوں کیلئے موجودہ اور عالمی پروازوں کیلئے الگ سے ائرپورٹ بنا دیا جائے تو یہ عوام کی سہولت اور حفاظتی نکتہئ نظر سے بھی زیادہ بہتر (مناسب) رہے گا تاہم درخواست گزار کی جانب سے موجودہ ائرپورٹ کو ختم کرنے پر زور دیا گیا ہے تاکہ ائرپورٹ کے اطراف میں سڑکوں کو آمدورفت کیلئے کھولا جا سکے لیکن کسی ائرپورٹ کا مطلب ’شہری ہوا بازی‘ شہری ہوا بازی کی تربیت اور سامان کی نقل و حمل (کارگو) بھی ہوتی ہے اور پشاور ائرپورٹ یہ تینوں بنیادی ضروریات کسی نہ کسی صورت پوری کر رہا ہے‘ جنہیں اگر تقسیم کر دیا جائے تو اِس سے ممکنہ نئے ائرپورٹ پر بھی دباؤ کم رہے گا۔
 یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جبکہ پشاور سے کچھ فاصلے پر ائرپورٹ کیلئے میلوں پر موجود بنجر اراضی موجود ہے اور یقینا (اُمید یہی ہے کہ) نئے ائرپورٹ کی تعمیر سے متعلق غوروخوض میں ”غیرزرعی اراضی“ کا انتخاب ہی کیا جائے گا۔ نیو پشاور انٹرنیشنل ائر پورٹ کی تعمیر کیلئے جن فیصلہ سازوں کو فریق بنایا گیا ہے اُن میں وفاقی حکومت بذریعہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ‘ پاکستان ائرفورس بذریعہ وزارت دفاع‘ سول ایوی ایشن اتھارٹی بذریعہ سیکرٹری‘ پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن بذریعہ چیف ایگزیکٹو آفیسر‘ چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا اور خزانہ (فنانس) اور بلدیات (لوکل گورنمنٹ) کے صوبائی سیکرٹریز شامل ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور کا موجودہ ہوائی اڈہ جسے PEW اور OPPS کے اصطلاحی ناموں سے بھی پہچانا جاتا ہے اور یہ 1927ء میں برطانوی راج کے دوران چھاؤنی کے ایک چھوٹے سے حصے میں تعمیر کیا گیا تھا تاہم وقت کے ساتھ اِس ہوائی اڈے کے اطراف میں آبادی بڑھتی چلی گئی جس کی وجہ سے اِس کی وسعت ممکن نہیں رہی ہے لیکن اگر نئے ائرپورٹ کی بجائے ائرپورٹ کے اطراف بالخصوص اِس کے رن وے کو وسعت دینے کیلئے آس پاس کی رہائشی آبادیاں خالی کروائی جائیں اور نیا ائرپورٹ بنانے پر سینکڑوں ارب روپے خرچ کرنے کی بجائے کم خرچ میں چند ہزار افراد کو ایک نئی بستی (ٹاؤن) میں بسا دیا جائے تب بھی مسئلے کا حل ممکن ہے۔ 
پشاور کے موجودہ ائرپورٹ کو بناتے وقت (1926-27ء) میں بھی چھاؤنی سے ملحقہ ’کوزہ آبدرہ‘ کے اِس رہائشی علاقے کی آبادی کو یہاں سے منتقل کیا گیا اور 1965ء سے عالمی (انٹرنیشنل) پروازوں کے لئے استعمال ہونے والی اِس سہولت پر ہر سال مسافروں کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ نئے ائرپورٹ کی ضرورت اِس لئے بھی محسوس کی گئی ہے کہ سندھ کے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ‘ پنجاب کے دو کروڑ بیس لاکھ‘ بلوچستان کے ایک کروڑ پچیس لاکھ جبکہ خیبرپختونخو اکے 3 کروڑ 55 لاکھ سے زائد آبادی کیلئے ایک انٹرنیشنل ائرپورٹ ہے۔ علاوہ ازیں وقت کے ساتھ ائرپورٹ آبادی کے وسط میں آ چکا ہے اور اِس کے اطراف میں رہنے والے جہازوں کے شور اور جہازوں سے اخراج ہونے والے ایندھن (فضائی آلودگی) سے براہ راست متاثر ہیں۔ عالمی معیار کے مطابق دنیا کے صرف 5 فیصد ائرپورٹ ایسے ہیں جو رہائشی آبادی سے کم و بیش 80 کلومیٹر (50میل) سے فاصلے پر ہیں اور ایک طبی تحقیق کے مطابق ائرپورٹ کے قرب و جوار میں رہنے والے مختلف اقسام کی بیماریوں میں مبتلا پائے گئے جن میں سب سے عام جگر اور ذہنی و نفسیاتی امراض ہیں۔
 ماحولیاتی نکتہئ نظر سے بھی یہ پہلو لائق توجہ ہے۔ پشاور ائرپورٹ کا رن رے 9000 فٹ (2700میٹر) طویل‘ 150 فٹ (46 میٹر) وسیع ہے جس پر جہازوں کے پروں (شولڈرز) کیلئے 3 میٹرز کی گنجائش موجود ہے۔ یہاں ایک وقت میں 4 بڑے مسافر طیارے یا 3 ائر بس اور 2 چھوٹی باڈی والے مسافر جہاز بیک وقت کھڑے کئے جا سکتے ہیں۔ ائرپورٹ پر 2018ء میں 2 ’ائر بریجیز‘ بھی قائم کی گئی ہیں‘ جو ظاہر ہے کہ ناکافی ہیں اور اب بھی مسافروں کو ائرپورٹ کی بلڈنگ سے جہاز تک بس میں سوار کر کے لیجایا جاتا ہے جو ’رن وے‘ پر قطار بنا کر کھڑے ہوتے ہیں اور پھر ایک بس کو ٹرمینل سے جہاز تک کئی چکر کاٹنا پڑتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور کے ہوائی اڈے (باچا خان انٹرنیشنل ائرپورٹ) کا رن وے 9 ہزار فٹ لمبا ہے جبکہ دنیا کا سب سے بڑے ائرپورٹ کا رن وے 18 ہزار 45 فٹ ہے اور یہ ایک لاکھ اَسی ہزار جبکہ پشاور ائرپورٹ کم سہولیات کے ساتھ سالانہ پندرہ لاکھ سے زائد مسافروں کی آمدورفت کا مرکز ہے۔