عید اورفلسفہ عید 

ایک اور عید قوم کو تقسیم کرکے گذرگئی رویت ہلال کمیٹی قوم کو عید پر متفق کرنے میں ایک بارپھرناکام ہوگئی اور اب کے بار ملک میں دو کے بجائے تین عید یں منائی گئیں شمالی وزیرستان سمیت مختلف علاقوں میں اتوار کو عید منائی گئی حیرت انگیز امریہ رہاہے کہ شمالی وزیرستان اور افغانستان میں عید پہلی بار سعودی عرب سے بھی ایک دن قبل منائی گئی جس کے لئے جواز  دینا اب ان کاکام ہے پشاور سمیت صوبہ کے اکثریتی اضلاع اور بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں عید الفطر پیر کو منائی گئی۔مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے اس با ربھی شہادتوں کے لئے انتظار کرنے کے بجائے بظاہر بہت عجلت میں اجلاس ختم کیا حالانکہ اس کی پشاور میں بیٹھی زونل کمیٹی کے پاس کافی شہادتیں آرہی تھیں مگر مرکزی کمیٹی نے اپنی زونل کمیٹی کے ساتھ رابطہ قطع کرلیا تھا۔غالباً ملک کی تا ریخ میں پہلی بار زونل کمیٹی نے مرکزی کمیٹی کے برعکس عید ایک دن قبل منانے کااعلان کیا۔نجانے کیوں خیبرپختونخوا اوربلوچستان کی شہادتوں کو پرکھنے تک کی زحمت نہیں کی جاتی۔خیبرپختونخوا ور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں چاند دکھائی دینے کی صورت میں مرکزی کمیٹی تک شہادت پہنچنے میں کافی وقت لگ جاتاہے اس لئے کمیٹی کو انتظار کرناچاہئے مگر کمیٹی کی اپنی ہی منطق ہے اس بار ایک دو نہیں پوری 130شہادتیں آئیں جبکہ زونل رویت ہلال کمیٹی کو بھی درجن بھر سے زائد شہادتیں موصول ہوئیں مگر مرکزی کمیٹی نے تو اس بار اپنی ہی زونل کمیٹی کوبھی کسی قطار شمار میں نہیں رکھا جس سے مستقبل میں مزید پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں اس معاملہ میں تو اس بارنئے وفاقی وزیر مذہبی امور تک بے بس دکھائی دیئے عید جو قوم کو متحد کرنے اور ملک میں خوشیاں منانے کاموقع ہوتاہے اس پرہربار ہم تقسیم درتقسیم کے بھنور میں پھنستے چلے جارہے ہیں اس معاملہ میں یا تو کوئی راستہ نکالنا بہتر ہوگا یا پھر اپنا اعلان اپنی عید کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے اور مطعون کرنے کی روش ترک کرناہوگی جہا ں تک عید سعید کاتعلق ہے تو وہ گذر چکی ہے عید آگئی کا معنی ہے اس سال کا رمضان المبارک اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ آئندہ سال یہ مبارک مہینہ ہم میں سے کتنے لوگوں کو میسر آئے گا جنہیں میسر ہوگا اْن میں سے کتنے ہوں گے جو ماہ مبارک کے تقاضوں کی صحتمندانہ تکمیل کے قابل ہونگے۔ سوائے رب العالمین کے کوئی نہیں جانتا۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان کے آخری دنوں ہی سے اختتام ِ رمضان کا احساس اکثر مسلمانوں کو مضمحل رکھتا ہے اور چاند رات کو نقطہء عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ اس قلبی اضمحلال کو آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا۔مگر نظام ِ قدرت دیکھئے کہ چاند رات کے گزرنے کے ساتھ ہی روز عید طلوع ہوتا ہے اور یوں محسوس ہونے لگتا ہے جیسے چاروں طرف خوشیاں برس رہی ہوں۔ دل کی کیفیت اچانک بدلتی ہے، کل رنجیدہ تھے، ملول تھے، آج دریائے مسرت میں غوطہ زن ہیں۔ ہم جانتے ہیں رمضان المبارک انسانوں کو اپنے رب سے قریب ہونے، اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنے اور خدا اور رسول کے احکامات کو بجا لانے کی تربیت کے طور پر آتا ہے تاکہ اس ماہ سے استفادہ کرنے والے بقیہ گیارہ مہینوں سے بھی استفادۂ تربیت کے قابل ہوجائیں۔ کوئی بھی ٹریننگ وقتی یا عارضی ہوتی ہے مگر اس لئے برپا کی جاتی ہے کہ اس دوران جو کچھ سیکھا، اس کا نفاذ یا اہتمام آئندہ زندگی میں جاری رہے۔ عید کا دن اسی عزم کا تقاضا کرتا ہے کہ رمضان کی ٹریننگ سے گزرنے والے لوگ بقیہ گیارہ مہینوں کو رمضان کی طرح گزاریں۔ اگر ایسا ہو تو بقیہ مہینے رمضان المبارک کی توسیع تصور کئے جاسکتے ہیں۔اس دوران صرف روزہ کی شرط نہیں ہوگی کیونکہ پورے ایک ماہ کے روزوں کو خالق کائنات نے صرف رمضان سے مخصوص کیا ہے اور پورے رمضان کے روزوں کو فرض کیا ہے مگر باقی تمام عبادات، مواخات، انفاق، خدا ترسی، بہی خواہی، سب کچھ بالکل اْسی طرح جاری رہ سکتا ہے جیسا کہ رمضان المبارک میں جاری تھا۔ یہ کہلائے گی رمضان کی توسیع۔ یہ انسان کے اختیار میں ہے بلکہ اسی کے لئے ایک ماہ کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کل سے دْنیا بدل جائے اور آئندہ رمضان تک بدلی ہوئی رہے۔ کورونا کے دو سال غضبناک رہے۔ ان میں بہت سوں کا روزگار چھن گیا۔ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی اور اب معاشی پریشانی کے سبب سلسلہ ء تعلیم منقطع ہونے کے قریب ہے۔ جن لوگوں کاروزگار جاری ہے اْن کی معاشی حالت بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی ہے۔ اس پر روزافزوں مہنگائی نے بہت سوں کیلئے ناگفتہ بہ حالات پیدا کردیئے ہیں۔ رمضان میں ہمدردی اور غمگساری کا ماحول تھا۔ زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کا سلسلہ جاری تھا۔ اگر یہ آئندہ بھی جاری رہے تو اس سے معاشرہ کے معاشی طور پر کمزور خاندانوں کو کافی راحت مل سکتی ہے۔ معاشرہ میں بہت سے غریب ایسے ہیں کہ غریب دکھائی دیتے ہیں مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جو غریب دکھائی نہیں دیتے۔ عام تاثر یہ ہوتا کہ فلاں کی معاشی حالت ٹھیک ٹھاک ہے مگر حقیقتاً ویسی نہیں ہوتی یہی و ہ سفید پوش طبقہ ہے جو اپنی ضرورت کسی کے سامنے نہیں لاسکتا‘ معاشرہ کے متمول افراد کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو تلاش کریں جو ضرورت مند ہیں مگر خودداری اور عزت نفس کی خاطر اپنی پریشانی کسی سے بیان نہیں کرتے۔ اگر اس عید پر یہ عزم ہو کہ ایسے افراد اور خاندانوں کی تلاش اور اْن کے ساتھ تعاون کو یقینی بنایا جائے گا تو دست سوال دراز نہ کرنے والے بھی فیضیاب ہونگے۔ دست سوال دراز کرنے والوں کو تو ہم دیتے ہی ہیں رمضان میں جو جذبہ ایثار دلوں میں پیداہوتاہے اگر اس کو سارا سال زندہ رکھنے کو ممکن بنایاجاسکے تو اس ماہ مقد س کا اصل مقصد بہت حد تک پورا ہوسکے گا۔