پشاور کہانی: پبلک ٹرانسپورٹ مشکلات

سال دوہزارسولہ میں عوامی رائے پر مبنی ایک جائزے سے معلوم ہوا تھا کہ پشاور میں 90 فیصد سے زائد ایسی خواتین جو کہ ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے استفادہ کرتی ہیں‘ آمدورفت کے ذرائع سے مطمئن نہیں ہیں اور اِنہیں کئی ایک طرح کے مسائل (ذہنی و جسمانی کوفت) کا سامنا ہے جن میں پرہجوم پبلک ٹرانسپورٹ میں دھکم پیل‘ بسوں کے عملے اور مسافروں سے ہراسگی‘ بلاوجہ بے عزتی اور وقت کے ضیاع جیسی مشکلات شامل تھیں۔ خواتین کی اِس تعداد میں شامل طالبات کی مشکلات الگ تھیں جنہیں کسی مقررہ وقت پر اپنے تعلیمی اِداروں کو پہنچنا ہوتا تھا لیکن پشاور کی پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال ہمیشہ ہی سے تاخیر کا باعث رہتا اور یہ بات بھی یقینی نہیں ہوتی تھی کہ تعلیمی یا دفتری اوقات کے آغاز (صبح) اور تعلیمی یا دفتری اوقات کے اِختتام (سہ پہر سے شام تک) جیسے مواقعوں پر کوئی بھی مسافر وقت مقررہ پر اپنی منزل یا واپس گھر پہنچ سکتا تھا لیکن ’بس رپییڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی)‘ متعارف ہونے کے ساتھ جہاں ’ائرکنڈیشن‘ بسوں میں سفر جیسا خواب (تصور) حقیقت کی صورت اختیار کر گیا وہیں وقت کی پابندی اور بروقت و باسہولت آمدورفت بھی ممکن ہو چکی ہے۔پشاور کی ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ (بی آر ٹی) المعروف ’میٹرو بس‘ کی فعالیت (تیرہ اگست دوہزاربیس) کا سب سے زیادہ فائدہ ملازمت پیشہ خواتین اور طالبات اُٹھا رہی ہیں۔ قبل ازیں پشاور شہر (چغل پورہ‘ گل بہار‘ نشترآباد‘ ہشت نگری‘ چارسدہ سے یونیورسٹی ٹاؤن اور حیات آباد) سے شہر کے دوسرے حصے میں واقع دفاتر اور تعلیمی اداروں تک پہنچنا کسی ڈراؤنے خواب جیسا تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے اور جس طرح ہر مشکل کے بعد راحت آتی ہے بالکل اِسی صورت پشاور کی میٹرو بس بھی کسی نعمت سے کم نہیں لیکن اِس نعمت کی خاطرخواہ قدر اور اہمیت کا احساس نہیں کیا جا رہا۔ دوسری طرف ’میٹرو بسوں‘ میں خواتین کیلئے مختص ایک چوتھائی نشستوں کی تعداد میں بھی اضافے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے اور ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ہر دو یا چار بسوں کے بعد ایک بس صرف خواتین کیلئے مخصوص ہونی چاہئے کیونکہ خواتین مسافروں کی تعداد مردوں کے مساوی یا اِن سے زیادہ ہے جنہیں مصروف اوقات میں پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ڈیزل اور بجلی کی مِلی جُلی طاقت والی اِن درآمد شدہ ’ہائبرڈ بسوں‘ کی تعداد میں مطلوب اضافہ مقامی بسوں سے کر دیا جائے بالخصوص خواتین کیلئے جن الگ بسوں کی ضرورت ہے وہ چند برس قبل جاپان حکومت کے مالی تعاون سے شروع کئے گئے ’پنک بسوں (Pink Buses)‘ کی طرز پر ہونا چاہئے‘ جس میں درآمدی اور مقامی بسوں کا استعمال کیا گیا اور ایسی بسوں کے فاضل پرزہ جات و مرمت بھی آسان رہتی ہے۔ ایک تجویز ’بی آر ٹی‘ کے انتظامی امور اور انفرادی حیثیت برقرار رکھتے ہوئے مختلف روٹس (راہداریوں) پر نجی شعبے کی شراکت سے پبلک ٹرانسپورٹ متعارف کروائی جائے اور اِس سلسلے میں پشاور‘ اندرون ملک اور بیرون ملک رہنے والے پشاوریوں کو سود سے پاک‘ نفع نقصان کی بنیاد پر سرمایہ کاری (ریپیڈ بس ٹرانزٹ منصوبے میں شراکت داری) کی دعوت دی جائے یقینا پشاور سے آبائی تعلق رکھنے والے ہر شخص کی خواہش و کوشش ہوگی کہ وہ اپنے شہر کی کسی طور خدمت کر سکے اور خدمت کا یہ جذبہ ایسی صورت میں زیادہ پرکشش ہو سکتا ہے جبکہ اِس کے ساتھ کچھ نہ کچھ مالی فائدہ بھی جڑا ہو۔ اگرچہ اِس قسم کی سرمایہ کاری کا تصور انوکھا ہے لیکن اگر ’ٹرانس پشاور‘ کو وسعت دینی ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کی ضروریات پورا کرنی ہیں تو اِس کے سوا چارہ نہیں کہ پشاور کے ’بی آر ٹی‘ میں نجی شعبے کو سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے۔ تجویز یہ بھی ہے کہ پشاور بس ٹرمینل (المعروف جی ٹی ایس لاہور اڈہ)‘ پشاور جنرل بس اسٹینڈ (المعروف حاجی کیمپ اڈہ) اور ٹرک اڈے کو چغل پورہ سے آگے سبزی و فروٹ منڈی کے آس پاس منتقل کیا جائے اور ریپیڈ بس ٹرانزٹ کے ذریعے مال برداری بھی متعارف کروائی جائے یعنی سبزی و فروٹ منڈی سے شہر کے دوسرے حصے حیات آباد‘ ورسک روڈ اور چارسدہ روڈ کے انتہائی حصوں تک مال برداری کیلئے خشک گودیاں بنائی جائیں تو اِس سے بھی ریپیڈ بس ٹرانزٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ ممکن ہے جبکہ اِس طرح کے استعمال سے مسافروں کو دی جانے والی سہولیات (عمومی آپریشن) بھی متاثر نہیں ہوگا۔پشاور کی ’ریپیڈ بس ٹرانزٹ‘ کے ملازمین کی تعداد 2 ہزار کے لگ بھگ ہے جن میں 15فیصد خواتین ہیں جبکہ اِس تناسب میں اضافے کے ساتھ مزید توسیع کی ضرورت ہے۔ ذہن نشین رہے کہ بیس ماہ پہلے ’بی آر ٹی‘ سے استفادہ کرنے والے کل مسافروں میں خواتین کا تناسب قریب 2 فیصد تھا جو قریب دو سال میں بڑھ کر 30فیصد ہو چکا ہے اور اگر بسوں کی تعداد بڑھائی جائے اور خاص اوقات میں خواتین کیلئے الگ سے خصوصی بسیں چلائی جائیں تو یہ تعداد پچاس فیصد سے تجاوز کر جائے گی۔ پشاور میں خواتین موٹرسائیکل یا سائیکلیں نہیں چلاتیں اور یہی وجہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ چاہے جس قدر بھی دشوار گزار‘ ہتک آمیز یا آسان ہو پشاور کی خواتین نے اِسی میں سفر کرنا ہوتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور کے شہری علاقے کا کل رقبہ قریب 215 مربع کلومیٹر ہے جبکہ ’میٹرو بس‘ کی لمبائی قریب 30 کلومیٹر ہے اور یہ پشاور شہر یا اِس کے تمام حصوں پر مشتمل نہیں ہے۔