پشاورکی تفریح گاہیں 

جامعہ پشاور کے پہلو میں واقع صوبے کا اکلوتا چڑیا گھر حکومت کی طرف سے بچوں کے لئے انمول تحفہ اور بہترین تفریح گاہ ہے جہاں انواع و اقسام کے جانور اور پرندے موجود ہیں۔شیر، بھیڑیا، زرافہ،بندر، ہرنوں کی متعدد اقسام اورشترمرغ سے لے کرمور تک مختلف رنگوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے چھوٹے بڑے پرندے چڑیاگھر کی زینت ہیں۔عید الفطر کے موقع پر چڑیاگھر ہی بچوں کیلئے سب سے پرکشش تفریح گاہ رہا۔لیکن غیر معمولی رش، بدانتظامی اورٹکٹ  بلیک میں فروخت ہونے کے باعث نہ صرف تفریح کا مزہ کرکرا ہوگیا بلکہ حکومت کو بھی لاکھوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔سیکورٹی کا بھی مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے منچلے نوجوان چڑیا گھر کے جانوروں کوتنگ کرتے رہے۔ انہیں پتھر اور ڈنڈے مارتے رہے۔ کچھ لوگوں کوجرمانہ کرکے جانوروں کے پنجروں کی سیکورٹی بڑھا دی گئی‘انتظامیہ کاکہناہے کہ عید کے چار  دنوں میں ایک لاکھ نوے ہزار شہریوں نے چڑیاگھر کی سیر کی۔ جانوروں کو ستانے اور انہیں پتھر مارنے سے کئی جانور زخمی ہوگئے قواعد کی خلاف ورزی پر5افراد کو گرفتار کیا گیا اور ان سے جرمانہ بھی وصول کیا گیا،شہریوں کے مطابق چڑیا گھر میں مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے کئی قیمتی جانور ہلاک ہو چکے ہیں  بعض جانور بیمار پڑے ہو ئے ہیں‘چڑیا گھر کے علاوہ شہر کے پارکوں اور تفریحی مقامات پر بھی عید کے دنوں میں غیر معمولی رش رہا۔ شالیمار باغ میں ہلڑبازی کے باعث حالات کشیدگی ہو گئے، جس پر فیملیز کو پارک سے باہر نکال دیاگیا، شالیمار باغ، فیملی پارک، تاتارا پارک اور باغ ناراں میں شدید رش کے باعث خواتین اور بچوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ٹریفک کا نظام متاثر ہوا۔شالیمار باغ میں سیکورٹی کے مناسب انتظامات نہ ہونے کے باعث پارک میں آنے والے درجنوں افراد جیب تراشوں کے ہاتھوں لٹ گئے۔پشاور کی آبادی پچاس لاکھ کے لگ بھگ ہے شہریوں کیلئے تفریح کے مواقع بہت محدود ہیں۔عید کے ایام میں باغ ناراں، تاتارا پارک اور شالیمار باغ میں غیر معمولی رش کے باعث لوگ اپنے بال بچوں سمیت وہاں جانے سے کتراتے ہیں شہر میں صرف چاچایونس پارک ہی بچوں کی واحد تفریح گاہ ہے جہاں تل دھرنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ وزیرباغ اب صرف کہانیوں میں رہ گیا ہے۔ حکومت جنرل بس سٹینڈ کو شہر سے باہر منتقل کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے جی ٹی روڈ پر سردار گڑھی میں نئے بس سٹینڈ کیلئے جگہ بھی مختص کی گئی ہے موجودہ جنرل بس سٹینڈ کی اراضی پر پارک کے قیام کی تجویز تھی۔تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ حکومت اس اراضی پر تجارتی مراکز اور رہائشی عمارتیں تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ تجارتی اور کثیر منزلہ رہائشی فلیٹس کیلئے لاہور اڈے سے ڈائیوو اڈے تک کی وسیع اراضی کافی ہے۔ جی ٹی روڈ کی دائیں جانب کی وسیع اراضی کو اگر تفریحی پارک کیلئے مختص کیاجائے تو اہل پشاور کو شہر کے اندر وسیع اور بہترین تفریح گاہ میسر آئے گی۔اس سلسلے میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی،میئر پشاوراور بلدیاتی نمائندوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ پشاور کے باسیوں کو ان کے گھر کے قریب تفریح گاہ کی سہولت ملنے کے ساتھ شہر کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوگا۔اور شہر کے دیگر تفریح گاہوں پر تہواروں میں غیر معمولی رش اور بدمزگی سے بھی بچا جاسکے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی شہر میں تفریحی مقامات ایک بنیادی ضرورت ہے جس سے شہریوں کو نہ صرف صحت مندانہ سرگرمیوں کی ترغیب ملتی ہے بلکہ یہ ماحول کے حوالے سے ایک مثبت قدم سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ تفریحی مقامات یقینا ماحول دوست پہلوؤں کو سامنے رکھ کر ڈیزائن کئے جاتے ہیں۔