سٹیٹ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کی جانب سے تسلیم کیا گیا ہے کہ عیدالفطر سے قبل اور تہوار کے دوران تین نجی بینکوں کے صارفین ”آن لائن ڈیبٹ کارڈ سکینڈل“ سے متاثر ہوئے یعنی دھوکہ دہی کے ذریعے اُن کے کھاتوں سے رقومات نکلوائیں گئیں یا ادائیگیاں کی گئیں۔ متاثرہ صارفین کی ایک تعداد نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم یونٹ میں شکایات بھی درج کرائی ہیں۔ آن لائن بینکنگ سے کتنے صارفین مطمئن ہیں؟ تو اِس سوال کا جواب یہی ہے کہ جو اب تک دھوکہ دہی (فراڈ) سے بچے ہوئے ہیں اُن کے ذہنوں میں بھی اندیشے موجود ہیں کہ اپنے آن لائن کوائف کو رازداری سے محفوظ رکھنے کے باوجود بھی اِس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ اُن کے ’آن لائن‘ کھاتوں سے رقومات نکال لی جائیں اور ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ دھوکہ دہی کا شکار ہونے والے صارفین نے یہ بھی بتایا ہے کہ ان کے پلاسٹک کارڈز کام نہیں کر رہے۔
بینکنگ ریگولیٹر اور متعلقہ وزارت کی جانب سے سائبر سیکورٹی کی مضبوط حکمت عملی جاری کرنے کے باوجود گزشتہ دو سالوں کے دوران پاکستان میں ڈیجیٹل بینکنگ کے بڑھتے ہوئے استعمال کے ساتھ ڈیٹا کی خلاف ورزیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ مالیاتی اداروں کو اپنے صارفین اور نظام کو ہیکنگ کی کوششوں سے محفوظ بنانے کیلئے ایک جامع حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔ بیرون ملک سے ہیکرز نے پاکستان کے ایک معروف بینک سے چوری کرنے کیلئے غیر ملکی کرنسیوں میں دھوکہ دہی سے مالی لین دین کرنے کیلئے ڈیبٹ کارڈ ڈیٹا کا استعمال کیا۔ مالیاتی ادارے کو اس واقعے کے نتیجے میں عملی طور پر اپنے تمام صارفین کیلئے ڈیبٹ کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے غیر ملکی مالی لین دین روکنا پڑا۔ تمام دھوکہ دہی کے لین دین ڈالر میں کئے گئے تھے۔ اب جو کوئی بھی
انٹرنیٹ بینکنگ کیلئے ڈیبٹ کارڈ استعمال کرنا چاہتا ہے اسے پہلے سروس کو فعال کرنا ہوگا‘ ورنہ حفاظتی وجوہات کی بنا پر سروس معطل ہونے کی وجہ سے انہیں اس سہولت کی فراہمی سے معذرت کر لی جاتی ہے۔ اِس سلسلے میں زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ آن لائن دھوکہ دہی کے زیادہ تر واقعات میں معمولی رقم چوری کی جاتی ہے لیکن چونکہ یہ تھوڑی تھوڑی رقم بہت سے کھاتہ داروں سے لی گئی ہوتی ہے اِس لئے مجموعی طور پر بینک صارفین کو لاکھوں ڈالر کا نقصان ہو جاتا ہے تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ بیرون ملک سے کام کرنے والے سائبر مجرموں (ہیکرز) نے کل کتنے بینک کھاتوں سے کتنی رقم چوری کی ہے۔ سائبر مجرموں (ہیکرز) کا پسندیدہ ہتھیار (آلہ) گوگل سرچ بھی ہے جس کے استعمال سے وہ کسی شخص کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ سائبر دھوکہ دہی کے واقعات سال دوہزاراٹھارہ سے جاری ہیں اور ان میں وقت کے ساتھ تیزی (اضافہ) دیکھنے میں آیا ہے۔ اس طرح کے حملوں نے تقریبا تمام پاکستانی بینکوں کو متاثر کیا ہے اور ہیکرز نے لوگوں کے اکاؤنٹس سے بھاری رقم چوری کی ہے۔ نومبر دوہزاراٹھارہ میں ایک نجی بینک نے بتایا تھا کہ ڈیٹا کی خلاف ورزی سے اسے براہ راست نقصان اور انٹرنیٹ بینکنگ سمیت مختلف آپریشنز کی معطلی پر تقریبا ساٹھ لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ فروری دوہزاراُنیس میں ایک نجی بینک کے 69 ہزار 189 صارفین کے کوائف (بینک کارڈز کی تفصیلات) پر مبنی ڈیٹا بیس ”ڈارک ویب“ پر فروخت کیلئے پیش کی گئی تھی۔ ڈیٹا لیک ہونے کے نتیجے میں بینک کو 35 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بینک انتظامیہ نے صورتحال کا فوری جواب دیا اور اپنے صارفین کو ہدایت کی کہ وہ اپنا پن نمبر اور دیگر حفاظتی اقدامات تبدیل کریں تاکہ مزید پیسے چوری ہونے سے بچائے جا سکیں۔ پاکستان میں آن لائن بینکنگ کو زیادہ محفوظ بنانے کیلئے جہاں سیکورٹی انتظامات کو وقتاً فوقتاً مزید سخت بنانا پڑے گا بلکہ آن لائن وسائل سے متعلق صارفین کی خواندگی میں اضافے کیلئے بینکوں کو خصوصی مہمات چلانی چاہئیں۔