قبائلی اضلاع کی ترقی کا پروگرام

خیبر پختونخوا حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری شروع کردی ہے صوبے میں ضم ہونے والے سات قبائلی اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے بجٹ میں 62ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔جس میں 24ارب روپے سالانہ ترقیاتی پروگرام، دو ارب بیس کروڑ روپے ضلعی ترقیاتی پروگرام اور 36ارب روپے تیز تر ترقیاتی پروگرام کی مد میں رکھے جائیں گے۔ قبائلی اضلاع میں زراعت کے شعبے کی ترقی کے لئے68کروڑ70لاکھ،، اوقاف حج مذہبی اور اقلیتی امور کے لئے 16کروڑ، محکمہ مال کے لئے 38کروڑ،پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب کے لئے ایک ارب چودہ کروڑ نوے لاکھ،،ایلیمنٹری ایجوکیشن کے لئے دو ارب روپے،توانائی کے شعبے کے لئے 87 کروڑ 80لاکھ،ایڈمنسٹریشن کے لئے تین کروڑ چالیس لاکھ،محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کیلئے 3کروڑ،محکمہ خزانہ کے لئے ایک کروڑ،محکمہ خوراک کے لئے چالیس لاکھ،،جنگلات کے شعبے کیلئے 39کروڑ80لاکھ،، صحت کے شعبے کیلئے ایک ارب 46کروڑ چالیس لاکھ،،اعلیٰ تعلیم کیلئے 63کروڑ،محکمہ داخلہ کے لئے 28کروڑ 90لاکھ،،محکمہ صنعت کیلئے 69کروڑ،محکمہ اطلاعات کے لئیتین کروڑ تیس لاکھ،محکمہ قانون اور انصاف کیلئے10کروڑ،بلدیات کے لئے ایک ارب 49 کروڑ،معدنیات کے شعبے کیلئے 6کروڑروپے مختص کئے جائیں گے۔ ملٹی سیکٹر ڈویلپمنٹ کے لئے تین ارب 70کروڑ،بہبود آبادی کے لئے چار کروڑ بیس لاکھ، بحالی اور آباد کاری شعبے کے لئے6کروڑ،سڑکوں کے تعمیر کیلئے پانچ ارب 39کروڑ،سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کیلئے9کروڑ پچاس لاکھ، سماجی بہبود کے شعبے کے لئے 24کروڑ 60لاکھ، کھیل سیاحت اور ثقافت کے شعبے کے لئے 84کروڑ،،شہری ترقی
 کے لئے ایک ارب 52کروڑاورصاف پانی کی فراہمی اور آبپاشی کے لئے دوارب بیس کروڑروپے کا فنڈ مختص کرنے کی تجویز ہے۔صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کو ستر سالوں تک حکمرانوں نے نظر انداز کئے رکھا۔ وہاں کے عوام بنیادی شہری سہولیات سے بھی محروم رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد قبائلی اضلاع کے عوام کو ترقی کے نئے دور میں داخل ہونے کی نوید سنائی گئی تھی۔۔ وفاق اور تمام صوبوں نے عہد کیاتھا کہ وہ این ایف سی ایوارڈ میں اپنے حصے کا تین فیصد آئندہ دس سالوں تک قبائلی علاقوں کی تعمیر و ترقی کے لئے دیں گے۔لیکن گذشتہ تین سالوں سے صرف وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ سے اپنے حصے کا فنڈ ضم اضلاع کو دی رہی ہے، سندھ، پنجاب اور بلوچستان نے اپنے حصے کا فنڈز دینے سے صاف انکار کردیا ہے جس کی وجہ سے قبائلی علاقوں کی تیز تر ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں 
 ہوسکا۔ صوبائی حکومت نے اپنے تمام محکموں کے دفاتر ساتوں قبائلی اضلاع میں قائم کردیئے ہیں مگر وہاں ترقی کا عمل نئے سرے سے شروع کرنا ہے اور وسائل کی قلت ہے اس وجہ سے ترقی کی رفتار سست ہے۔صوبائی حکومت نے بجٹ میں اپنی استعداد سے بڑھ کر ضم اضلاع کی ترقی کیلئے وسائل مختص کئے ہیں۔حکومت کو قبائلی اضلاع کیلئے پہلے ترجیحات کا تعین کرنا چاہئے۔ وہاں لوگوں کو تعلیم، صحت، روزگار کی فراہمی اولین ترجیح ہونی چاہئے اور وسائل کا رخ ان شعبوں کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے۔اس بات کو بھی یقینی بناناناگزیر ہے کہ ضم اضلاع کی ترقی کیلئے مختص فنڈ کی پائی پائی وہاں کے عوام کی ترقی اور خوشحالی اور انہیں بنیادی شہری سہولیات کی فراہمی پر خرچ ہو اور ان علاقوں کے لوگوں کو تعلیم، علاج اور روزگار کیلئے پشاور اور ملک کے دوسرے شہروں کا رخ نہ کرنا پڑے۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے دوران عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والے قبائلی خاندانوں کو ان کے گھروں میں واپس لاکر آباد کرنے پر بھی حکومت کو خصوصی توجہ دینی چاہئے۔