بلدیاتی اداروں کو فعال کرنے کی ضرورت

خیبر پختونخوا ملک کا پہلا صوبہ ہے جہاں دومرحلوں میں انتخابات کے انعقاد کے بعد بلدیاتی ادارے بحال ہوچکے ہیں۔ منتخب بلدیاتی نمائندوں نے حلف بھی اٹھالیا ہے۔ دسمبر میں صوبے کے ستر اضلاع میں اور دوسرے مرحلے پر اٹھارہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے۔ صوبائی حکومت کی طرف سے منتخب بلدیاتی اداروں کو ترقیاتی فنڈز ابھی جاری نہیں ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ ادارے پوری طرح فعال نہیں ہوئے۔ توقع ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام سے قبل بلدیاتی اداروں کو فنڈز جاری کئے جائیں گے اور اگلے بجٹ میں ان کے لئے خاطر خواہ وسائل مختص کئے جائیں گے۔اس بار بلدیاتی اداروں کا نیاڈھانچہ سامنے آیا ہے۔ ضلع کونسل کو ختم کرکے تین درجاتی بلدیاتی نظام کو تبدیل کردیا گیا۔اب دو درجاتی سسٹم نافذ ہوچکا ہے۔ شہری علاقوں میں تحصیل اور نیبرہڈ کونسلیں اور دیہی علاقوں میں تحصیل اور ویلج کونسلیں قائم کی گئی ہیں۔بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے دنیا کے اکثر جمہوری ممالک میں لوگ بلدیاتی اداروں سے تربیت حاصل کرکے قومی ایوانوں تک پہنچتے ہیں۔
 اٹھارویں ترمیم کے ذریعے وسائل کو وفاق سے صوبوں اور صوبوں سے بلدیاتی اداروں کو منتقل کرنے کا نظام وضع کیاگیا تھا۔ اور وسائل کی تقسیم کے لئے قومی مالیاتی کمیشن اور صوبائی مالیاتی کمیشن تشکیل دینے کی تجویز دی گئی تھی۔بہت سے محکمے وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوئے تھے تاہم ان محکموں کے وسائل اور اثاثے ابھی تک صوبوں کو منتقل نہیں کئے گئے اور صوبائی مالیاتی کمیشن بھی پوری طرح فعال نہیں ہوسکا۔جس کی وجہ سے بلدیاتی اداروں کو مالی مشکلات کا سامنا ہے اور متعدد ٹی ایم ایز کے ملازمین گذشتہ چند مہینوں سے تنخواہوں سے بھی محروم ہیں۔جن میں قبائلی ضلع کرم کے 3ٹی ایم ایز اپرکرم‘ لوئرکرم‘ وسطی کرم‘شمالی وزیرستان کی میران شاہ‘ میرعلی‘ رزمک‘جنوبی وزیرستان کی وانا‘ سروکئی‘ لدھا‘باجوڑ کی خار‘ناواگئی‘خیبرکی جمرود‘لنڈی کوتل‘باڑہ‘ضلع مہمند کی اپرمہمند‘ لوئرمہمند‘ بائیزئی‘ اور ضلع اورکزئی کی اپراورلوئراورکزئی کی ٹی ایم ایزشامل ہیں۔ٹی ایم ایزکو 60لاکھ روپے کی گرانٹ فی ٹی ایم اے دسمبر میں جاری کی گئی تھی تاہم وہ تنخواہوں کی ادائیگی میں صرف ہوگئی‘ اکثر ٹی ایم ایز کی آمدن کے ذرائع محدودہیں ان کے پاس کمرشل جائیدادیں نہیں ہیں۔
محکمہ بلدیات حکام کا کہنا ہے کہ ان ٹی ایم ایز کی آمدن بڑھانے کیلئے کمرشل منصوبے لانے پرغور کیاجارہا ہے تاکہ انہیں مالی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں مدد دی جاسکے۔ماضی میں سیاسی حکومتیں بلدیاتی اداروں کے قیام میں لیت و لعل سے کام لیتی رہی ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہیں کرنا چاہتی تھیں۔موجودہ صوبائی حکومت نے بلدیاتی ادارے بحال کرکے ایک دیرینہ عوامی مطالبہ پورا کردیا ہے۔ بلدیات کو وسائل اور اختیارات کی منتقلی سے جہاں عوام کو ان کی دہلیز پر زندگی کی بنیادی سہولیات میسر آئیں گی وہیں صوبائی حکومت پر بھی بوجھ کم ہوگا۔توقع ہے کہ صوبائی حکومت نومنتخب بلدیاتی اداروں کو وسیع تر عوامی مفاد میں پورے اختیارات اور وسائل منتقل کرنے میں دیگر صوبوں سے پہل کرنے کا اپنا ریکارڈ بہتر بنائے گی۔ اس سے ایک طرف عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے اور ان کے مسائل حل کرنے کا وعدہ پورا ہوگاوہیں حکومت کو اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے سیاسی فوائد بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔