میئر پشاور ’حاجی زبیر علی‘ نے پشاور کے ٹریفک مسائل حل کرنے کیلئے ”ٹھوس اقدامات“ کا عندیہ دیتے ہوئے متعلقہ حکومتی اداروں سے تجاویز (مجوزہ ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات) طلب کی ہیں اور ایک بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ”پشاور کی تعمیروترقی اور خوبصورتی درحقیقت خیبرپختونخوا کی تعمیروترقی اور خوبصورتی کی آئینہ دار ہوتی ہے۔“ قبل ازیں (اپریل دوہزاربائیس کے آخری ہفتے میں) اُنہوں نے خواجہ سراؤں کی تعلیم و تربیت کیلئے الگ ادارے کے قیام اور نشے کے عادی افراد کی بحالی پر خصوصی توجہ دینے کیلئے ’سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ‘ سے تجاویز بھی طلب کر رکھی ہیں تاہم جس تیزی سے مسائل کی نشاندہی اور اعلانات ہوئے ہیں‘ اُس تیزی سے عملی اقدامات کی بھی امید ہے۔ کیونکہ ماضی میں یہاں تعمیروترقی کے حوالے سے منتخب و غیرمنتخب فیصلہ ساز کسی ایک ہی مسئلے کے حل کی کوششیں کر رہے ہوتے ہیں لیکن وہ ماضی میں کی گئی ایسی ہی کوششوں پر نظر نہیں کرتے اور نہ ہی اداروں کی کارکردگی کا احتساب کرتے ہیں‘ جس کے بغیر تعمیروترقی اور خوبصورتی نہ تو پائیدار ہو سکتی ہے اور نہ جامع اُور مستقبل کی ضرورتوں سے ہم آہنگ۔ بہرحال و بہرصورت پشاور کا کوئی بھی مسئلہ اُس وقت تک حل نہیں ہوگا جب تک اُس کے ماضی و مستقبل پر نظر نہ کی جائے۔
ماضی پر نظر کرنے کا مطلب اُس کے سبب کا سدباب جبکہ مستقبل پر نظر رکھنے سے یہاں مراد بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات ہیں‘حاجی زبیر علی نے پندرہ مارچ دو ہزاربائیس کے روز ’میئر پشاور‘ کے عہدے کا حلف اُٹھایا‘ میئر پشاور کا عہدہ 7 تحصیلوں پر مشتمل ہے جس کیلئے پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات پشاور سمیت سترہ اضلاع میں 19 دسمبر 2021ء کے روز ہوئے تھے‘نئے بلدیاتی نظام کے تحت میئر پشاور جو کہ تحصیل پشاور کا سربراہ ہونے کیساتھ تحصیل پشتخرہ‘ تحصیل متھرا‘ تحصیل شاہ عالم‘ تحصیل چمکنی تحصیل بڈھ بیر اور تحصیل حسن خیل میں ترقیاتی کاموں اور بلدیاتی نظام کی فعالیت پر نظر رکھتا ہے۔ اِس لحاظ سے ”میئر پشاور“ کے عہدے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے‘ بلدیاتی نظام میں پشاور کو 7 تحصیلوں‘ 9 ویلیج کونسلوں اور 121 نیبرہڈ کونسلوں (دیہی علاقوں) میں تقسیم کیا گیا ہے لیکن پشاور کے شہری و دیہی علاقوں کی یہ تقسیم انتہائی واضح ہونے کے باوجود بھی ترقیاتی عمل کیلئے درکار مالی وسائل خاطرخواہ فراہم نہیں کئے جاتے اور آج بھی پشاور کیلئے ترقیاتی مالی وسائل کا بڑا حصہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹرز کی صوابدید پر خرچ ہوتا ہے جبکہ اشد ضرورت ”بلدیاتی نظام کو مضبوط و فعال کرنے کی ہے۔“ اور بلدیاتی انتخابات کے بعد کس سیاسی جماعت کی جیت ہوئی ہے یہ نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ اب سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر سوچتے ہوئے پشاور کی قسمت کے فیصلے اِس کے موجودہ بلدیاتی نمائندوں کو سونپ دینے چاہئیں۔
حاجی زبیر علی کا تعلق ’جمعیت علمائے اسلام (ف) سے ہے جس نے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں مجموعی طور پر 24 تحصیلوں کی میئر‘ چیئرمین شپ حاصل کی جبکہ دوسرے نمبر پر تحریک انصاف کے حصے میں 17 تحصیلوں کی میئر اور چیئرمین شپ آئیں تھیں جبکہ 10 نشستوں پر آزاد‘ 7 پر عوامی نیشنل پارٹی‘ 3 پرمسلم لیگ نواز‘ دو دو نشستوں پر جماعت اسلامی و تحریک اصلاحات پاکستان جبکہ ایک نشست پر پیپلزپارٹی پارلیمینٹرنز کے نامزد بلدیاتی اُمیدوار کامیاب ہوئے تھے پشاور کی ضرورت ایسے ’وسیع البنیاد ترقیاتی عمل‘ کی ہے‘ جسے سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی مفادات کی عینک لگا کر نہ دیکھیں یعنی پشاور کی خدمت سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر کی جائے تو کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں جس کا پائیدار حل تلاش نہ کیا جا سکے۔ حاجی زبیر علی نے بطور ’میئر پشاور‘ حلف اُٹھانے کی تقریب کے فوراً بعد‘ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت میں پشاور کے جن مسائل کا ذکر کیا اُس جامع فہرست کے بعد کسی سوچ بچار کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن صرف اور صرف عمل درآمدکی ضرورت ہے۔ حاجی زبیر علی نے کہا تھا کہ ”پشاور کو انواع و اقسام کے مسائل کا سامنا ہے جن میں ٹریفک کا بے ہنگم نظام‘ بغیرمنصوبہ بندی و منظوری ترقی‘ بجلی (برقی رو) کا طویل تعطل‘ پینے کے صاف پانی کی قلت‘ پینے کے پانی کی تقسیم کا نظام‘ بڑھتی ہوئی آبادی اور کم وسائل شامل ہیں۔
”پشاور کے مسائل“ اور ”پشاور کے وسائل“ مربوط نہیں اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پشاور کے وسائل کو اِس سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جاتی کہ ہر تحصیل کی آمدنی صرف اور صرف اُس تحصیل پر خرچ ہو‘ پشاور کے مرکزی شہر کے وسائل پر دیہی علاقوں کا بوجھ ناقابل برداشت اور غیرمنطقی ہونے کے ساتھ پشاور کے ساتھ ظلم بھی ہے۔ انتہائی بنیادی ضرورت یہ ہے کیونکہ ”پشاور سٹی تحصیل“ کی آمدنی جو کہ دیگر تحصیلوں کے مقابلے نسبتاً زیادہ ہے لیکن اُسے دیگر چھ تحصیلوں پر تقسیم کرنے کے بعد نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی ایک بھی تحصیل میں شہری بنیادی سہولیات کا ڈھانچہ ’مثالی شکل و صورت اختیار نہیں کر پاتا۔ وقت ہے کہ تحصیلیں اپنی آمدنی و اخراجات میں توازن کے ساتھ ”پشاور شہر“ پر اپنا بوجھ (مالی انحصار) کم کرنے کے بارے میں بھی سوچیں کیونکہ گنجان آباد شہر کے مسائل بحرانی شکل اختیار کر چکے ہیں اور اُن کا حل ایک ایسے مربوط ترقیاتی عمل سے مشروط ہو چکا ہے‘ جس میں پشاور مرکزی نکتہ ہو۔