پاکستان اور افغانستان کے درمیان کرنسی کی بجائے اشیاء کے تبادلے کے نظام ”بارٹر سسٹم“کے تحت تجارت شروع کر دی گئی جس کے تحت افغانستان سے خشک اور تازہ پھلوں،معدنیات،قالینوں اور دیگر اشیاء کے بدلے انہیں آٹا، گھی، دودھ کی مصنوعات، ٹیکسٹائل، ادویات اور افغانستان کی ضرورت کی دیگر اشیاء برآمد کی جائیں گی وزارت تجارت نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارٹر سسٹم کے تحت تجارت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سلسلے میں کام کا آغاز کر دیا گیا ہے افغانستان کی جانب سے پاک افغان مشترکہ ایوان صنعت و تجارت کوبارٹر سسٹم کو حتمی شکل دینے کیلئے مذاکرات کیلئے نامزد کیا گیا ہے جبکہ پاکستان نے بھی مذاکرات کیلئے کمیٹی قائم کر دی ہے جس میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس،پاک افغان جائنٹ چیمبر،سرحد چیمبر، چمن چیمبر، خیبر چیمبر، کوئٹہ چیمبر، فریش فروٹ اینڈ ویجیٹیبل چیمبر، رائس ایکسپورٹ ایسوسی ایشن، فارماسوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن، سیمنٹ مینو فیکچررز ایسوسی ایشن، پولٹری ایسوسی ایشن، کارپٹ مینوفیکچرنگ اینڈ ایکسپورٹر ایسوسی ایشن اور میٹ ایکسپورٹ اینڈ پروسیسر ایسوسی ایشن کے نمائندے شامل ہیں‘جب کرنسی نوٹوں کا رواج نہیں تھا تو اقوام کے درمیان بارٹر سسٹم کے تحت تجارت ہوتی تھی تجارتی قافلے اپنے ملک کی مصنوعات لیکر دوسرے ملکوں میں جاتے اوراپنے سامان کے بدلے وہاں کی مصنوعات لے کر واپس آتے اور انہیں اپنے ملک میں فروخت کرتے تھے۔
بارٹر سسٹم کا ایک بڑا فائدہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بچت کی صورت میں بھی حاصل ہوگا‘ افغانستان کیلئے دنیا کے دیگر ممالک سے تجارت کرنے کا واحد ذریعہ پاکستان ہی ہے‘ افغان ٹرانزٹ کے تحت تمام تجارت پاکستان کے راستے ہوتی ہے‘ دنیا کے مختلف ممالک سے تجارتی سامان کراچی بندرگاہ پہنچتا ہے وہاں سے چمن اور طورخم کے ذریعے کابل پہنچایاجاتا ہے افغانستان 90فیصد اشیائے خوردونوش، کپڑے، گوشت، پولٹری مصنوعات، انڈے، دودھ کی مصنوعات، چاول، آٹا، گندم، بیکری کی مصنوعات اور ادویات پاکستان سے درآمد کرتا ہے‘طالبان حکومت کے قیام کے بعد افغانستان پر بین الاقوامی پابندیاں عائد ہیں ان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر نہیں رہے‘ پاکستان کیساتھ تجارت کیلئے اسے پاکستانی کرنسی میں ادائیگی کرنی تھی یا بارٹر سسٹم کی طرف آنا تھا‘ تجارت میں مال کے بدلے رقم وصول کی جاتی ہے جبکہ بارٹر سسٹم میں مال کے بدلے مال کا سودا کیاجاتا ہے۔
تجارت کے یہ دونوں طریقے دنیا میں پائے جاتے ہیں‘ معاشی لحاظ سے کمزور ممالک جن کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر بہت کم ہوتے ہیں وہ بارٹر سسٹم سے تجارت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ 95فیصد ممالک کے درمیان تجارت کرنسی کے بدلے ہوتی ہے‘ بارٹر سسٹم کا ایک نقصان یہ ہے کہ آپ کوجتنی مقدار میں مال دوسرے ملک سے چاہئے ہوتا ہے اس مقدار میں اپنے مال کا سودا نہیں کرپاتے‘مال کی مقدار اور قدر کا تعین کرنا بھی ایک محنت طلب کام ہے اورفریقین کے درمیان مال کے بدلے مال کی تجارت کرنے میں کافی بحث و مباحثہ کرنا پڑتا ہے‘ مال کی طلب و رسد میں فرق کی وجہ سے بھی قیمتوں پر اثر پڑتا ہے جس سے تجارت کا توازن برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے۔تاہم افغانستان جیسے پسماندہ سمندر سے دور اور خانہ جنگی سے تباہ حال ملک کیلئے کرنسی کے بدلے تجارت کرنا فی الوقت ممکن نہیں اس لئے بارٹر سسٹم کے ذریعے تجارت کرکے وہ اپنی معیشت کو سنبھالنا چاہتا ہے‘ پاکستان مال کے بدلے مال کی تجارت کے ذریعے اپنے برادر پڑوسی اسلامی ملک کے ساتھ مدد کرنا چاہتا ہے۔