شہر شہر اور گاؤں گاؤں تعمیر و ترقی کا عمل کئی وجوہات کی بنا پر ’ادھورے پن‘ کا شکار ہے‘ جس میں ایک پہلو تو یہ ہے کہ قومی خزانے سے کی جانے والی تعمیروترقی میں مستقبل کے تقاضوں (آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروریات) کو مدنظر نہیں رکھا جاتا اور دوسرا پہلو جو اِس بھی زیادہ تشویش کا باعث ہے کہ قومی خزانے سے خطیر رقومات خرچ کرنے کے باوجود بھی تعمیروترقی عوام کے مسائل حل کرنے کا باعث (وسیلہ) نہیں۔ ترقیاتی ادھورے پن سے متعلق اِس تصور کو 2 مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پہلی مثال پشاور شہر کے علاقے سیٹھی ٹاؤن (پہاڑی پورہ)‘ کی ہے جہاں کے رہائشی ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی موسم گرما کے آغاز ہی سے 3 طرح کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ حسین چوک سے غالب سٹریٹ اور اِس سے ملحقہ محلوں میں پینے کے پانی کی فراہمی گزشتہ کئی ہفتوں سے معطل ہے۔
پانی کب آئے گا‘ کسی کو کچھ نہیں معلوم اور نہ ہی اُمید ہے لیکن پانی آئے نہ آئے آبنوشی کا بل باقاعدگی سے ادا کرنا ضروری ہے۔سیٹھی ٹاؤن کا دوسرا مسئلہ ’نکاسیئ آب‘ کے نظام کی صفائی نہ ہونا اور تیسرا مسئلہ کوڑا کرکٹ کی بروقت تلفی نہ ہونا ہے جس کے سبب مچھروں اور مکھیوں کی اَفزائش (بہتات) ہے جبکہ مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں کا جاری عرصہ (سیزن) اہل علاقہ کیلئے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ سب سے زیادہ ضروری ٹیوب ویل کا چالو کرنا ہے تاکہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی ممکن ہو سکے!تعمیروترقی اور عوام کو فراہم کی جانے والی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے منصوبوں میں پائے جانے والے ”اَدھورے پن“ کی بدترین دوسری مثال سیٹھی ٹاؤن سے 150 کلومیٹر دور ’ہری پور‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
جہاں کے ”منگ“ نامی دیہی علاقے میں 200 طلبہ کیلئے ”سرکاری ہائی سکول“ 10 سال قبل تعمیر ہوا‘ جس کے بعد اراضی کے مالک اور محکمہئ تعلیم کے درمیان مالی امور پر تنازعہ پیدا ہوا اور مذکورہ عمارت تعمیر تو ہوئی لیکن دس سال سے فعال نہ ہو سکی! تصور کیا جا سکتا ہے کہ 10 سال کتنا طویل عرصہ ہوتا ہے جسے ضائع کرنے سے علاقے کے کس قدر تعلیمی حرج ہو چکا ہے اور یہ حرج مسلسل جاری بھی ہے! محکمہ تعلیم نے عارضی طور پر کرائے کی عمارت میں تین کمروں پر مشتمل سکول قائم کر رکھا ہے جبکہ میلوں سفر کر کے دور دراز سکول جانے والے کتنے ہی بچے سفری مشکلات کے باعث تعلیم کو الوداع کہہ چکے ہیں! سرکاری ریکارڈ کے مطابق ہری پور کے ’خان پور روڈ‘ کے کنارے آباد ’منگ‘ گاؤں میں سکول 1913ء میں تعمیر ہوا تھا۔
جس کی خستہ حال (پرانی) عمارت کو کی جگہ زیادہ گنجائش والی نئی عمارت تعمیر کی گئی۔ نئی عمارت تعمیر کرے کے لئے سال 2004ء میں اُس وقت کے محکمہئ تعلیم کے ضلعی نگران اور مالک اراضی کے درمیان زبانی کلامی معاہدہ ہوا جس کے بعد 2012 میں 86لاکھ روپے کی لاگت سے نئی عمارت تعمیر کی گئی اور معاہدے کے تحت پرانی عمارت والی اراضی زمیندار کو منتقل کرنا تھا۔ جب نئی عمارت میں کلاسیں شروع ہونے والی تھیں تو زمیندار نے معاہدے کے مطابق جائیداد کے حقوق کی منتقلی کیلئے محکمے پر دباؤ ڈالا اور جب حکام نے اراضی کی ملکیت کے ریکارڈ کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ پرانی عمارت کا ٹکڑا ہری پور ضلع کونسل کی ملکیت ہے اور سرکاری اراضی زمیندار کے نام منتقل کرنے سے معذرت کر لی گئی‘ اِس پوری کہانی سے ’منصوبہ بندی کا فقدان‘ کھل کر سامنے آتا ہے۔
ترقیاتی عمل سے زیادہ اِس کا ’ادھوراپن‘ دور کرنے کی ضرورت ہے اور اِس سلسلے میں ادارہ جاتی فیصلوں پر نظرثانی کیلئے ضلعی سطح پر ایسی مشاورتی کمیٹیاں تشکیل دی جا سکتی ہیں جس میں مختلف شعبوں کے ماہرین شامل ہوں اور اِن ’ٹیکنوکریٹس‘ کے ذریعے کسی بھی حکومتی ترقیاتی منصوبے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے جن میں بشمول لاگت‘ پائیداری‘ معیار‘ سماجی و ماحولیاتی اثرات اُور اِس کی راہ میں حائل ممکنہ قانونی رکاوٹوں کے بارے پہلے ہی سے سوچ بچار کر لیا جائے تو اِس سے حکومتی وسائل میں بچت اور عوام کو فراہم کی جانے والی سہولیات کی فراہمی میں روانی ممکن و برقرار بنائی جا سکتی ہے۔