حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں 40فیصد مریض اپنے لئے دوائیاں خود تجویز کرتے ہیں اور یہ دوائیاں براہ راست میڈیکل سٹوروں سے خریدتے ہیں‘ جن میں سردرد کی دوا پیناڈول اور ڈسپرین سے لے کر دل، جگر، گردوں کی بیماریوں،الرجی،نزلہ، فلو،بلند فشار خون،پین کلراور شوگر کی ادویات سے لے کراینٹی بائیوٹک ادویات بھی شامل ہیں۔یورپ اور امریکہ میں ڈاکٹر ی کے نسخے کے بغیر میڈیکل سٹور والے کسی کو سردرد کی دوائی بھی نہیں دیتے۔مگر ہمارے ہاں جان بچانے والی اور انتہائی خطرنا ک ادویات بھی باسانی دستیاب ہیں اور ان کی دو سے دس نمبر تک کی نقلی ادویات بھی کھلے عام فروخت کی جاتی ہیں۔
محکمہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں سالانہ ایک ارب انجکشن لگائے جاتے ہیں جن میں سے تقریباً نوے فیصد غیر ضروری طور پر لگائے جاتے ہیں جبکہ ستر فیصد انجکشن غلط طریقے سے لگانے کی وجہ سے اموات بھی واقع ہوتی ہیں۔ماہرین صحت کے مطابق ملک میں ہر دوسر ا بالغ شخص ہائی بلڈ پریشر کا مریض ہے‘ ملک کی تقریباً پچیس فیصد آبادی شوگر کے مرض میں مبتلا ہے اور 42فیصد بچے وزن کی زیادتی یا موٹاپے کا شکار ہیں،بچوں میں شوگر کے مرض میں مبتلا ہونے کی شرح بھی بڑھتی جار ہی ہے۔دیہی علاقوں میں خواتین آج بھی کسی مریض کی عیادت کیلئے جائیں تو اپنے ساتھ گھر میں موجود ایک دوقسم کی گولیاں لے جاتی ہیں اور یہ یقین دلانے کی کوشش کرتی ہیں کہ انہیں بھی اسی قسم کی تکلیف درپیش تھی ان گولیوں کے استعمال سے افاقہ ہوا ہے۔
اپنا علاج خود کرنے کی اس روایت کا عطائیوں نے خوب فائدہ اٹھایا ہے انہوں نے گلی محلوں میں اپنے مطب کھول رکھے ہیں جہاں بلاتشخیص لوگوں کا علاج کیاجاتا ہے۔اور بعض دیدہ دلیر قسم کے عطائی چھوٹے موٹے آپریشن کرنے سے بھی نہیں چونکتے۔آج بھی بعض عطائی ڈاکٹر، ایل ایچ وی اور ہیلتھ ورکرز بغیر تشخیص مریضوں کا علاج کرتے ہیں جب مریض کی حالت قابو سے باہر ہوجائے تو اسے پشاور ریفر کرکے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔دیہی علاقوں سے شہر کے بڑے ہسپتالوں میں آنے والے اکثر مریضوں کی حالت تشویش ناک ہونے کی یہی بنیادی وجہ ہے۔آج سے چالیس پنتالیس سال قبل دیہی علاقوں میں ہسپتال تھے نہ ڈاکٹر اور نرسوں کا کوئی وجود تھا۔ لوگ بیمار پڑتے تو حکیموں کو بلایاجاتا تھا جو نبض دیکھ کردیسی غذاؤں سے مریضوں کا علاج کرتے تھے۔
اس زمانے میں ٹی بی، کینسر،یرقان اور جذام کو ناقابل علاج مرض خیال کیاجاتا تھا۔ آج میڈیکل سائنس کی حیرت انگیز ترقی نے ہربیماری کو قابل علاج بنادیا ہے۔اور ادویات کی لاکھوں اقسام تیار کی گئی ہیں ہرجگہ ہسپتال اور صحت مراکز قائم ہیں ہر مرض کے ماہر ڈاکٹر بھی دستیاب ہیں حکومت نے ہسپتالوں میں داخل مریضوں کے مفت علاج کی سہولت بھی فراہم کردی ہے۔سہولیات گھر کی دہلیز پر میسر ہونے کے باوجود سیلف میڈی کیشن کا سلسلہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ جس کے انتہائی مہلک نتائج سامنے آنے کے باوجود لوگ باز نہیں آرہے۔ فارماسیوٹیکل ادویات کی ایک خرابی یہ ہے کہ ان کے سائیڈ ایفیکٹ بھی بہت ہیں۔کسی مرض کی دوا مقررہ مقدار سے زیادہ استعمال کی جائے تو اس کے منفی اثرات صحت پر مرتب ہوتے ہیں اور بعض ادویات کے منفی اثرات اتنے شدید ہوتے ہیں کہ انسان زندگی بھر کیلئے معذوریا جان سے ہی چلاجاتا ہے۔