پہلی بات: امریکی خلائی تحقیق کے مرکز ’ناسا (climate.nasa.gov)‘ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ”کرہئ ارض کی سطح کے درجہئ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کی شدت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ درجہ حرارت گزشتہ 2 ہزار سے زائد برسوں کے دوران سب سے زیادہ ہے“ جبکہ تشویشناک امر یہ ہے کہ نہ صرف گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے بلکہ سال کے گرم ایام کا شمار اور دورانیئے میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پشاور کے موسمیاتی مرکز کی جانب سے کہا گیا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران پاکستان اور بھارت کو اپنی لپیٹ میں لینے والی ”گرمی کی لہر (ہیٹ ویو)“ بے مثال اور بدترین ہے۔
شاید ہی انسانی نسل نے اِس قدر موسمیاتی خرابی کو اِس سے قبل برداشت کیا ہو‘ جو رکنے کا نام تک نہیں لے رہی! رواں ہفتے شائع ہونے والی ایک عالمی تحقیق کے مطابق ”ناقابل برداشت“ اضافی گلوبل وارمنگ جنوب ایشیائی خطے کو زیادہ متاثر کر رہی ہے جبکہ دنیا کے دیگر حصوں میں مختلف موسم اور قدرتی آفات جیسا کہ زلزلے اور طوفان رونما ہو رہے ہیں۔ مارچ اور اپریل میں پاکستان و بھارت کے بیشتر حصوں میں شدید گرمی نے ڈیڑھ ارب سے زائد افراد کو چالیس سینٹی گریڈ (ایک سو چار ڈگری فارن ہائیٹ) سے زیادہ جھلسا دینے والے درجہ حرارت کو برداشت کرنے پر مجبور کیا جبکہ رواں برس سال کا گرم ترین عرصہ یعنی جون اور جولائی کے مہینے ابھی آنا باقی ہیں! اور موسمیاتی سائنسدان اِس بات کی پیشگی اطلاع دے رہے ہیں کہ رواں برس شدید گرمی کی لہر کے باعث ہلاکتیں بھی زیادہ ہوں گی!
اِس مرحلہئ فکر پر اِنسانی رویئے حیرت کا باعث ہیں جو گرمی کی لہر اور اِس کی شدت پر تو حیرت کا اظہار کر رہے ہیں لیکن ماحولیاتی خرابی کا باعث بننے والے محرکات (اپنی اور دوسروں کی ماحول دشمن حرکات و سکنات) پر غور نہیں کرتے۔ عجیب صورتحال ہے کہ کرہئ ارض کا ماحولیاتی تنوع جو کسی نعمت سے کم نہیں تھا لیکن صنعتوں اور گاڑیوں سے اُگلنے والے دھویں جیسی دو بنیادی اور بڑی وجوہات کے سبب اِس قدر دباؤ میں ہے کہ قدرت کی جانب سے کرہئ ارض کے ماحول کی درستگی کا ازخود نظام بھی کام نہیں کر رہا۔ ماحولیاتی علوم پر نگاہ رکھنے والوں نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ چند برس میں دنیا کی قریب نصف آبادی ”مہلک (ناقابل برداشت) گرمی“ کا سامنا کرے گی جس کی وجہ ”گلوبل وارمنگ“ میں اضافہ ہے اور اگرچہ دنیا کے ”پیرس معاہدے“ کی صورت اِس بات پر اتفاق کیا ہے کہ کرہ ارض کا درجہئ حرارت 2 ڈگری سینٹی گریڈ کم کیا جائے گا لیکن اِس اتفاق رائے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سنجیدہ کوششیں دیکھنے میں نہیں آ رہیں۔
ذہن نشین رہے کہ اگر پیرس معاہدے کے تحت ہوا میں خارج ہونے والی کاربن کی مقدار میں کمی لائی جاتی ہے تو اِس سے کرہئ ارض کا درجہئ حرارت 2.8 ڈگری سنٹی گریڈ کم ہو سکتا ہے اور پیرس معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں یہی درجہئ حرارت قریب تین سنٹی گریڈ بڑھ جائے گا! اگر موجودہ گرمی کی لہر ”ناقابل برداشت“ ہے تو تصور کیا جا سکتا ہے کہ مزید گرمی کس طرح برداشت ہو گی جبکہ اِس کے کثیرالجہتی اثرات ہیں۔ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (آئی پی سی سی) نے حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ”پاکستان میں ”طویل مدت اور زیادہ کثرت سے شدید گرمی کی لہروں کا امکان ہے۔“ یہ بات ذہن نشین رہے کہ غیر معمولی گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) کا مطلب یہ ہے کہ درجہئ حرارت پچاس سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو جائے اور رواں برس پاکستان کے مختلف حصوں میں ”غیرمعمولی گرمی کی لہر“ کا امکان ہے۔ گرمی کی لہر کو مہلک (جان لیوا اور ناقابل برداشت) بنانے کی وجہ ہوا میں نمی کا تناسب کم ہونا ہے۔
جب انسانی جسم زیادہ گرم ہوتا ہے تو دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور اِس کی وجہ سے جلد کے اندر خون کی گردش کا نظام متاثر ہوتا ہے جسے معمول پر رکھنے اور جسم کی سطح کا درجہئ حرارت برقرار رکھنے کیلئے پسینہ خارج ہوتا ہے لیکن جب گرمی کے ساتھ ہوا میں نمی کی کمی ہو تو یہ قدرتی طور پر جسم کو ٹھنڈا رکھنے کا نظام کام کرنا بند کر دیتا ہے یہ بالکل اُسی طرح کا عمل ہے جیسا کہ سورج کی شعاؤں سے جسم پر سرخ دھبے نمودار ہوتے ہیں جبکہ گرمی کی لہر اور ہوا میں نمی کی کمی کے باعث یہی ’سن برن‘ جسم کے داخلی حصوں میں رونما ہوتے ہیں! ماہرین سے بات کی جائے تو جو ایک بات اُنہیں پریشان کئے ہوئے ہے وہ یہ ہے کہ گرمی کی لہر‘ سیلاب‘ طوفان اور خشک سالی میں اضافہ کرہ ارض کے درجہئ حرارت میں صرف ایک ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کی وجہ سے ہے جبکہ دنیا عالمی درجہ حرارت میں اضافہ دوگنا ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایسی صورت میں گرمی کس قدر قابل برداشت ہوگی اور اِس کے منفی اثرات کس قدر وسیع ہوں گے‘ اِس کا تصور کرنا قطعی مشکل نہیں ہے!۔
دوسری بات: بجلی کے کم سے کم‘ محتاط اور انتہائی ضروری (ذمہ داری کے ساتھ) استعمال صرف کفایت شعاری ہی کے نکتہئ نظر سے نہ کیا جائے بلکہ برقی رو کا ’اسراف (غیرضروری استعمال)‘ ترک کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ عموماً دیکھا جاتا ہے کہ گھروں میں ٹیلی ویژن و دیگر الیکٹرانک آلات چاہے اُن سے استفادہ نہ بھی ہو رہا ہو لیکن وہ ”آن (بجلی خرچ کرتے)“ رہتے ہیں اور اِس سلسلے میں سب سے زیادہ بے احتیاطی موبائل فونز کے چارجنگ آلات کے استعمال میں دیکھی جاتی ہے۔ برطانوی محاورہ ہے کہ ”ایک یونٹ بجلی بچت کا مطلب ایک یونٹ بجلی کی پیداوار حاصل کرنے جیسا ہوتا ہے۔“
بجلی کے تعطل (لوڈشیڈنگ) کا دورانیہ ناقابل برداشت حدوں کا چھو رہا ہے۔ موسم گرما کے آغاز پر پاکستان میں بجلی کی پیداوار اور طلب کے درمیان تین ہزار میگاواٹ کا فرق تھا جو بڑھ کر چارہزار دو سو میگاواٹ ہو چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شہری علاقوں میں چار سے چھ گھنٹے جبکہ دیہی علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ دس سے بارہ گھنٹے کر دیا گیا ہے۔ گھریلو صارفین کیلئے برقی رو نہ ہونے سے ضروری معمولات زندگی جیسا کہ ائرکنڈیشنرز‘ پنکھے‘ ٹیلی ویژن‘ کپڑے دھونا اور پانی کی فراہمی متاثر ہوتی ہے جبکہ شہری علاقوں میں بجلی کے صنعتی صارفین (کاروباری افراد) کیلئے بجلی کی لوڈشیڈنگ ایسی صورتحال میں ’مہلک اثرات‘ رکھتی ہے جبکہ پہلے ہی مہنگائی اور معاشی بحران نے عام آدمی کی قوت خرید کم کر رکھی ہے اور ماضی کی طرح کاروباری تیزی نہیں رہی۔