یکم اپریل سے کاشتکاری کا نیا دورانیہ شروع ہے جسے ”خریف سیزن“ کہا جاتا ہے تاہم رواں برس کے خریف سیزن کے عین وسط میں کاشتکاروں کو گزشتہ برس کے مقابلے اِس مرتبہ ”38 فیصد“ پانی کی قلت کا سامنا ہے اُور اِس قلت سے کپاس‘ گنے‘ چاول اور مکئی سمیت تمام بڑی فصلوں کی پیداوار متاثر ہوگی جنہیں بو تو دیا گیا ہے لیکن اُن کے لئے پانی دستیاب نہیں ہے! سندھ ریور سسٹم اتھارٹی (آئی آر ایس اے) نے چاروں فیڈریٹنگ یونٹوں میں دریائے سندھ کے آبی ذرائع کی تقسیم کو ریگولیٹ اور نگرانی کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کو بتایا ہے کہ حریف سیزن سے قبل پاکستان میں پانی کی قلت کا تخمینہ 22 فیصد لگایا گیا تھا لیکن خریف سیزن کے وسط میں یہ قلت 38 فیصد جیسی غیرمعمولی سطح پر ہے! جس کی وجہ سے سندھ اور پنجاب کے کاشتکاروں کو بدتر حالات کا سامنا ہے۔ پاکستان میں آبی وسائل سے جڑے مسائل میں جہاں ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہے وہیں پانی کی غیرمنصفانہ تقسیم بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اُور ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اُور متعلقہ ادارے مل بیٹھ کر کسی نتیجے پر پہنچیں گے لیکن جہاں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہی کم ہو اور جہاں موسمیاتی اثرات ہر سال پہلے سے زیادہ شدت سے ظاہر ہو رہے ہوں وہاں سطحی فیصلہ سازی اُور فیصلہ سازی پر نظرثانی سے پانی قلت جیسے مسئلے پر قابو نہیں پایا جا سکتا بلکہ پاکستان کی ضرورت مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرنے کی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ یکم سے تیس اپریل تک تربیلا میں دریائے سندھ سے پانی کی متوقع آمد 2 اعشاریہ 102 ایم اے ایف کے مقابلے تیرہ فیصد کم ہے۔ اِسی طرح دریائے کابل میں پانی چھیالیس فیصد‘ منگلا میں چوالیس فیصد اور چناب میں گزشتہ سال کے مقابلے آنے والا پانی اڑتالیس فیصد کم ہے۔ جس کی بنیادی وجہ رواں برس اپریل میں ملک گیر بارش سالانہ اوسط سے 74 فیصد کم تھی اور پاکستان میں 1961ء کے بعد سے اپریل 2022ء خشک ترین مہینہ رہا ہے جبکہ اپریل میں بارش ملک کے سبھی حصوں میں اوسطاً کم رہی۔
بارشوں سے پنجاب کو 89فیصد‘ خیبر پختونخوا کو 79فیصد‘ بلوچستان کو 79فیصد‘ آزاد جموں و کشمیر کو 56 فیصد اور گلگت بلتستان کو اپنی آبپاشی و دیگر ضروریات کے لئے 51 فیصد پانی حاصل ہوا ہے۔ تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ دریائے کابل سے بھی اِس سال کم مقدار میں پانی ملنے کی توقع ہے۔پاکستان کا زرعی پیداواری شعبہ شدید دباؤ میں ہے۔ زراعت منافع بخش نہیں رہی اُور اِس صورتحال میں بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان کا غذائی تحفظ اُور غذائی مستقبل کتنے محفوظ ہیں؟ ہم میں سے بہت سے لوگ اس کا جواب کسی نہ کسی صورت یا تفصیلات کے ساتھ (وجدانی طور پر) جانتے ہیں۔ ’گلوبل نیٹ ورک اگینسٹ فوڈ کرائسز‘ ایک عالمی تنظیم نے جائزہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں غذائی تحفظ کو درپیش مسائل و مشکلات کا پائیدار حل تلاش نہ کیا گیا تو یہ مسئلہ مزید سنگین اُور گہرا ہو جائے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام سب کو غذائی عدم تحفظ کا شدید سامنا ہے اُور مذکورہ رپورٹ میں اس کی ایک وجہ کورونا وبا سے پیدا ہونے والے بحران کو بھی قرار دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں زرعی پیداوار کم ہوئی تھی لیکن پاکستان کو درپیش اصل مسئلہ خشک سالی کا ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اُور اِس خشک سالی (یعنی کم بارشوں) کی وجہ سے
سندھ اور بلوچستان کے وسیع رقبے متاثر ہو رہے ہیں۔ خشک سالی کے اثرات خیبرپختونخوا کے لئے بھی پریشانی کا باعث ہیں کیونکہ یہاں بھی بارشیں ایک تو اوسط سے کم ہو رہی ہیں اُور دوسرا پانی ذخیرہ کرنے کی بڑے پیمانے پر صلاحیت موجود نہیں ہے اُور بارش کے پانی کا بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے زرعی مسائل میں مال مویشی (لائیو سٹاک) کی بیماریاں‘ پیداوار اور نقل و حرکت جیسے شعبے متاثر ہوئے ہیں لیکن اِن برسرزمین تلخ حقائق کے مقابلے قومی فیصلہ سازوں اُور سرکاری اداروں کی دنیا الگ ہے۔ عوام کو مسلسل بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں غذائی تحفظ کو خطرہ لاحق نہیں اُور اِس مسئلے کا حل جلد تلاش کر لیا جائے گا لیکن مذکورہ عالمی رپورٹ میں جو منظرنامہ پیش کیا گیا ہے وہ حقیقت میں خطرے کی گھنٹی ہے جو مسلسل بج رہی ہے اُور پاکستان کو متوجہ دیکھنا چاہتی ہے کیونکہ پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک کی فہرست میں شامل ہے جس کی دو تہائی آبادی کم غذائیت کا شکار ہے اُور پاکستان کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے جبکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی (معاشی بحران) کے منفی اثرات اُن دیہی علاقوں پر بھی مرتب ہو رہے ہیں جن کی معیشت و معاشرت زرعی تھی اُور ماضی میں غذائی خودکفیل دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی اکثریت اب بدترین غربت کے دور سے گزر رہی ہے۔ پاکستان کے فیصلہ ساز اگر اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں کہ خوراک پیدا کرنے والے علاقے غذائی عدم تحفظ سے متاثر کیوں ہیں تو یہ جواب ملے گا کہ آبادی میں اضافے‘ پانی کی کمی‘ اور موسمیاتی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں جن سے نمٹنے کے لئے قومی حکمت عملی اُور زرعی اشتراک عمل کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ضرورت غربت کم کرنے کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے زرعی شعبے کو خاطر خواہ توجہ و اہمیت دینے کی ہے۔ کیا یہ صورتحال کسی بھی صورت خوش آئند ہے کہ ملک کے غریب مایوس کن صورتحال میں زندگی بسر کر رہے ہیں؟ حکومت کی جانب سے ضرورت مندوں کو مفت خوراک فراہم کرنا وقتی اقدام اور چند لوگوں کے لئے راحت کا باعث ہوسکتا ہے لیکن یہ مستقل حل نہیں۔