مئی کے مہینہ کے شروع کے پندرہ دن بیساکھ کے مہینے کے آخری پندرہ دن ہوتے ہیں اس لئے مئی کے ابتدائی دن قدرے معتدل ہوتے ہیں لیکن جب بیساکھ کا موسم سوکھا گزرتا ہے اور بارشیں نہیں ہوتیں تو یہی مہینہ جیٹھ ہاڑ سے زیادہ گرم ہو جاتا ہے اور مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہمارے نصاب کی کتا بوں میں بچوں کے لئے بہت عمدہ نظمیں لکھنے والے شاعر اسماعیل میرٹھی کی نظم”گرمی کا موسم“ شامل تھی جس کا پہلا شعر تھا
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینا
اس میں کوئی شک نہیں کہ گرمی کے موسم کا آغاز مئی ہی سے ہوتا ہے لیکن عموماً بیساکھ کا مہینہ اپنے ساتھ بارشیں بھی لے کر آ تا ہے جس کی وجہ سے مئی کے شروع کے دو ہفتے پاکستان کے بیشتر علاقوں میں معتدل گزرتے ہیں، لیکن یہ بھی ہے کہ ہر علاقے کی آب و ہوا کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں چنانچہ اسی معتدل موسم میں سمندر کے کنارے آباد کراچی بیشتر اوقات ہیٹ ویو(گرمی کی لہر) کی زد میں ہوتا ہے، میرٹھ بھی اتر پردیش کے ان ضلعوں میں ہے جہاں معمول کی بارشیں موسموں کے ساتھ کھیلتی رہتی ہیں اور اگر مون سون سوکھا گزرتا ہے تو پھر یہ علاقے اپریل اور مئی میں ابتر خشک سالی کا شکار ہو جاتے ہیں اور بارشیں معمول سے زیادہ ہو جائیں تو بھی صورت حال گھمبیر ہو جاتی ہے کیونکہ یہ موسم کٹائی کا ہوتا ہے اور بارش سے فصلیں خراب ہو جاتی ہیں، مگر عموما مئی کا مہینہ موسم کے حوالے سے کھٹا میٹھا اور معتدل سا ہو تا ہے، والدہ مرحومہ اس موسم میں میٹھی روٹی یا کلچہئ شیرین ضرور بناتی تھیں جن پر گھر میں موجود شیشے کی ایک سبز رنگ کی پلیٹ کو الٹا کر کے اس پر بنے اور ابھرے ہوئے نقش و نگار پر آٹا رکھ کر کلچہ بنایا جاتا تھا جو پکنے کے بعد بیل بوٹی کی وجہ سے دیکھنے میں بھی بہت دلکش ہو تا تھا اور جو بارش والے دن میں بستہ میں باندھ کر سکول بھی ساتھ لے جاتا اور دوستوں کے ساتھ شئیر کرتا تھا۔ جب کہ پھاگن کی بارشوں میں بیسنی روٹی مجھے پسند تھی،جسے اکوڑہ خٹک میں ”پیازہ کے“ کہتے ہیں،پیاز ٹماٹر اور ہلکے مصالحوں کی بنی یہ روٹی اب ذرا تبدیلی کے ساتھ ”پیزا“ (پزا) کہلاتی ہے اور اسے اٹلی کی سوغات کہا جاتا ہے، بات مئی کے موسم کی ہورہی ہے کہ اس کا مزاج یکساں کبھی نہیں رہتا، ان دنوں بیساکھ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے، بارشیں بھی ہوئیں تیز ہوائیں بھی چلیں کچھ دن سخت گرم تھے تو کچھ دن بہت معتدل بھی گزرے، مجھے کم و بیش چار دہائیاں پہلے کا مئی بھی یاد ہے جب بیساکھ اور جیٹھ کے سنگم پر ہونے والے میرے چھوٹے بھائی سید ناظم علی شاہ کی شادی کے سہرے میں ایک شعر میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ
کہاں مئی کا مہینہ کہاں خنک راتیں
عجیب فصل میں ارمان ِ وصل بھر آئے
اور اْس مئی میں راتوں کو لحاف اوڑھ کر سونا پڑ رہا تھا۔ تو کہیں اسماعیل میرٹھی کے میرٹھ کا چوٹی سے ایڑی تک پسینے بہاتا مئی اور کہیں خنک ر ا توں والے اکوڑہ خٹک کا مئی جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ مہینہ اپنا وکھرا مزاج رکھتا ہے شاید اسی لئے میں نے اپنی ایک ہندکو کی غزل میں یہ شعر بھی کہا ہے کہ
عشق دے اپڑے وکھرے موسم
گرم دسمبر ٹھنڈی مئی اے
مئی کے پہلے ہفتے میں عید کے بعدپہلے جمعہ کو مجھے اسلام آباد جانا تھا،اس سے پہلے ٹھنڈی ہواؤں اور کالی گھٹاؤں نے عید کے دنوں میں خوب میلے لگائے تھے جس کی وجہ سے گھر والوں کا اسلام آباد جانے کا پروگرام بن گیا تھا، طے یہ ہوا تھا کہ جمعہ کی نماز فیصل مسجد میں ادا کریں گے اور پھر سیر و تفریح کے لئے پارکوں میں گھومیں گے، مجھے یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ دوستوں سے رابطہ نہیں کرنا، میرے لئے یہ نادر شاہی حکم جان لیوا تھا کیونکہ مجھے یوں بھی اسلام آباد جا کر حسام حرکے ساتھ آئی ٹین کے معروف ڈھابے ”اختر عثمان کارنر“ جا کر قلم قبیلہ کے احباب کے پاس چند لمحے گزار کر اپنی ادبی تشنگی نہ بجھا نا کفران نعمت کے
مرتکب ہونے سا لگتا ہے چہ جائیکہ دو دن پہلے اختر عثمان سے وعدہ بھی کر لیا تھا، مگر بچوں کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ وہ دن نسبتا ًایک گرم دن تھا دھوپ نے آسمان کے مشرقی کنارے پر جمع ہونے والے بادلوں کو آگے بڑھنے سے مسلسل روکے رکھا۔ مجھے موٹر وے کا سفر ہمیشہ اچھا لگتا ہے کیونکہ اس کے کناروں سے لے کر تا حد ِ نظر پھیلے ہوئے سرسبز و شاداب درخت اور کھیت کھلیانوں کے قطعات غالب کی زبان میں ”دامان ِ باغبان و کف ِ گل فروش“ دکھتے ہیں، مگر ان دنوں موٹر وے کے اطراف کا حسن دیدنی ہے کیونکہ ایک طرف لانبے لانبے سر سبز چھتنار بنائے پیڑ ہیں اور دور تک سنہری بالیوں والی لہلہاتی فصلیں ہیں کہیں کہیں جن کی کٹائی شروع ہو چکی تھی جو میرے جیسے گاؤں سے خود ساختہ بے دخلی کے عذاب جھیلنے والے کے لئے دل موہ لینے والے مناظر تھے، تب مجھے بہ آواز بلند کہنا پڑتا ہے کہ یہ جو میچنگ اور کنٹراس کلر میں پہناوے سلوائے اور پہنے جاتے ہیں وہ فطرت سے بھی کچھ استفادہ کریں تو رنگوں کا یہ کمبی نیشن بہت سے خوش ذوق دلوں کو بہت بھائے گا، مگر کیا کیا جائے کہ شاعروں نے بھی لباس کے چناؤ سے حسینوں کو نیلے نیلے پیلے پیلے اودے اودے پیراہنوں سے بے نیاز کر دیا ہے۔ فارسی (بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش۔ من انداز ِ قدت را می شناسم) تو چاہے جس رنگ کا کپڑا پہن لے میں تو تمہیں تمہارے قد سے پہچان جاؤں گا‘ سے لے کر مولانا حسرت موہانی کے ”رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام“ تک میں یہی باور کرایا گیا ہے کہ حسینوں کے لئے پہناوے کا ا نتخاب کوئی معنی نہیں رکھتا گویا ”جسے پیا چاہے وہی سہاگن، کیا سانوری کیا گوری“ سبز اور سنہرے رنگ کا کمبی نیشن خصوصاً چیت کے مہینے میں اس وقت دیکھنے لائق ہو تا ہے جب سر سبز و شاداب کھیتوں میں سرسوں کے زرد اور سنہرے پھول ہواؤں کے ساتھ کھیلتے ہوئے اپنی بہار دکھاتے ہیں اور اسی موٹر وے پر جن کے پاس سے گزرتے ہوئے میں ہمیشہ نیرہ نور کو سنتے اور گنگنانے لگتا ہوں۔
پھولی ہے سرسوں بکھرے خوشی کے رنگ سجنا
آ، ہم بھی ہو لیں اڑتی ہواؤں کے سنگ سجنا