گزشتہ دنوں شہریوں کیلئے درد سر بھی بن جاتا ہے اپنے مطالبات کے پرامن احتجاج جمہوریت کا حسن ہے لیکن بعض اوقات پر احتجاج پرامن پشاور میں صوبائی اسمبلی کے باہر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پولیس کو لاٹھی چارج اور شیلنگ کرنی پڑی۔مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم کی وجہ سے اسمبلی چوک میدان جنگ میں تبدیل ہو گیاپولیس کے مطابق مظاہرین کے پتھراؤ سے ایک ڈی ایس پی،دو ایس ایچ اوز اور سات پولیس اہلکار زخمی ہو ئے، پولیس نے روڈ بلاک کرنے پرمتعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔پولیس کے مطابق ملازمین نے خواتین کو ڈھال بنا رکھا تھا،احتجاج اور شاہراہوں کی بند ش کے باعث شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ٹریفک جام ہونے کے باعث سکولوں کی بسیں اور ایمبولنس گاڑیاں بھی رش میں پھنس گئیں شدید گرمی سے بیشتر بچے بسوں میں بے ہو ش ہو گئے۔ ڈیوٹی پر تعینات پولیس اہلکاروں نے انہیں
پانی اور طبی امداد فراہم کی، صوبائی حکومت اور پشاور ہائی کورٹ کے احکامات کے باوجود اسمبلی چوک میں احتجاج، مظاہرے اور دھرنے معمول بن چکے ہیں حکام نے اپنا یہ عزم دہرایا ہے کہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور سڑکوں کو بند کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گاپرامن احتجاج ہر شہری کا آئینی اور قانونی حق ہے لیکن حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے نہیں دیا جائے گا۔اسمبلی چوک، جی ٹی روڈ، یونیورسٹی روڈ اور شہر کے دیگر مصروف ترین مقامات پر احتجاجی مظاہرے معمول بن چکے ہیں ڈیڑھ دو سو افراد سڑک پر دھرنا دے کر بیٹھ جاتے ہیں اور پورے شہر میں زندگی کے معمولات مفلوج ہوکر رہ جاتے ہیں‘مریض ہسپتال نہیں پہنچتے اورطبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں احتجاجی مظاہروں سے کاروباری طبقے کو بھی بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔عدالت عالیہ نے ایک سے زائد مرتبہ مصروف شاہراہوں اور چوراہوں کو بلاک اور شہری زندگی کے معمولات متاثر کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی ہدایت کی‘مگرعدالتی حکم پر عمل درآمد نہیں ہوپارہا۔ دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں سڑکوں، بازاروں اور چوراہوں پر احتجاج نہیں ہوتا ہمارے ہاں یہ روایت سیاسی پارٹیوں نے ڈالی ہے قبل ازیں ایک طویل عرصے تک سیاسی جماعتیں سوئیکارنو چوک کو جلسوں کے لئے استعمال کرتی رہی جس کی وجہ سے شعبہ بازار،
خیبر بازار اور قصہ خوانی گھنٹوں بلاک رہتا تھا لیکن آج کل پشاور ہائی کورٹ، صوبائی اسمبلی، پریس کلب،جی ٹی روڈ اور یونیورسٹی روڈ جیسی مصروف ترین شاہراہوں پر احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اور دھرنے فیشن بن گیا ہے۔احتجاج کرنے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں‘ بازؤوں میں سیاہ پٹیاں باندھ کر علامتی ہڑتال بھی کی جاسکتی ہے۔دفاتر کی حدود میں بھی مظاہرے کئے جاسکتے ہیں دفاتر کی تالہ بندی بھی احتجاج کا مؤثر طریقہ ہے۔پریس کانفرنس کرکے بھی حکومت کی توجہ اپنے مسائل پر مبذول کرائی جاسکتی ہے۔آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے وہاں پر بھی اپنا مؤقف پیش کیاجاسکتا ہے۔سڑکوں پر نکل کر اپنے ذاتی مفادات کے لئے پورے شہر کو مفلوج کرنا آئین، قانون، روایات اور اخلاقیات کے منافی ہے۔انتظامیہ کو بھی احتجاجی مظاہروں کے لئے کوئی ایسی جگہ مخصوص کرنا چاہئے جہاں احتجاج سے معمولات زندگی متاثر نہ ہوں۔