پاکستان میں پانی سے جڑے مسائل کا تعلق ملک کے جغرافیے سے ہے۔ ہندو کش ہمالیہ کا علاقہ دنیا میں تازہ پانی کے سب سے بڑے ذخیروں میں سے ایک ہے۔ اس خطے میں برفانی تودے (گلیشیرز) ایشیا کے سات عظیم دریاؤں کو پانی فراہم کرتے ہیں جن میں جنوبی ایشیا کے سندھ‘ گنگا اور برہم پتر شامل ہیں تاہم ہمالیہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے تیزی سے برف پگھل رہی ہے اُور وہ ذخیرہ جس پر خطے کے کئی ممالک کا انحصار ہے خطرے میں ہیں۔ذہن نشین رہے کہ جنوب ایشیائی خطے کے درجہ حرارت میں 1982ء کے بعد سے ڈیڑھ ڈگری سنٹی گریڈ اضافہ دیکھا گیا ہے جو عالمی اوسط سے زیادہ ہے۔موسمیاتی تبدیلیاں الگ سے رونما ہو رہی ہیں جس سے جنوب ایشائی خطے میں مون سون کی بارشیں کہیں کم تو کہیں زیادہ ہو رہی ہیں۔
مون سون بارشوں کے زیادہ ہونے سے زرعی شعبے کو فائدہ ہونے کی بجائے نقصان ہوتا ہے اُور زمین کی سطح پر زرخیز مٹی بہہ جانے کے علاؤہ زمین کا کٹاؤ اُور پانی کے بہاؤ کی زد میں اراضی آ رہی ہے۔ ان موسمیاتی رجحانات کے پاکستان پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں جن سے نمٹنے کے لئے ’بڑے آبی ذخائر‘ اُور ’پانی کے استعمال کے روایتی طریقوں کی بجائے کم پانی کے استعمال سے زراعت و باغبانی کی ضرورت ہے اور اگر موسمیاتی تبدیلیوں کو دیگر ترجیحات کے مقابلے نظرانداز کیا گیا تو پاکستان میں پانی کی قلت پر قابو پانا ممکن نہیں رہے گا اور اُس وقت سیاسی جماعتیں اور فیصلہ ساز ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کریں گے لیکن وقت گزر چکا ہوگا۔
زراعت کے نکتہئ نظر بنیادی طور پر پاکستان بنجر علاقہ ہے اور اس کے 80 فیصد رقبے پر فصلوں کو طویل دورانئے کی خشک سالی موسم کا سامنا رہتا ہے جبکہ آبپاشی کے دریاؤں اور کنوؤں سے ضرورت پوری کی جاتی ہے تاہم دستیاب پانی کی تقسیم کا موجودہ نظام بھی ناکافی و نااہل ہے۔ کیا یہ بات تشویش کا باعث نہیں کہ ہر سال پاکستان میں ذخیرہ کیا جانے والا 50 فیصد (یعنی نصف) پانی رساؤ یا بخارات کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ مزید برآں ناقص آبپاشی اور زمین کے کٹاؤ کے باعث بھی پانی سارا سال‘ ہر دن ضائع ہوتا رہتا ہے‘ جس کی وجہ سے زیرکاشت رقبے میں کمی آتی ہے اور پاکستان میں غذائی تحفظ پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان کو اس وقت پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی(آئی آر ایس اے) کے مطابق ملک میں پانی کی کمی کا تخمینہ جو بائیس فیصد لگایا گیا ہے دراصل 38فیصد ہے۔ اگرچہ حکومت کو توقع ہے کہ دریاؤں میں پانی کے بہاؤ سے جلد ہی پانی کی قلت کم ہوسکتی ہے لیکن موسمی حالات‘ گرمی کی شدت اور بارشوں میں کمی جیسے اشارے حالات کے سازگار ہونے کا اشارہ نہیں دیتے۔ خریف کے موسم کے دوران آبپاشی کے افعال کیلئے تقریباً 40 فیصد پانی کی قلت تشویشناک ہے کیونکہ یہ وقت بوائی کا ہے جس کیلئے فصل کو پہلا پانی چاہئے ہوتا ہے صرف بیج اور کھاد ڈالنے سے فصل جڑ نہیں پکڑتی۔
پانی کی قلت سے پیدا ہونے والی تشویشناک صورتحال کے باعث صورتحال ہر دن خراب ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان کے تقریباً تمام فیڈنگ یونٹ گرمی کے خوفناک اضافے اور پانی کی قلت جیسے دباؤ میں ہیں اور اگر صورتحال پر جلد قابو نہ پایا گیا تو خریف کی فصل کیلئے بوائی پر منفی اثر پڑے گا جو پہلے ہی متاثر ہے۔ اس نازک موڑ پر صوبوں کے لئے پانی کی تقسیم کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نمائندوں کو اکٹھا ہونا ہوگا۔ مزید اختلاف اور احتجاج سے بچنے کیلئے حکام کو بیراجوں اور ان کی ذیلی نہروں پر پانی کی آمد اور اخراج کا اندازہ لگانے کیلئے اتفاق رائے سے طریقہ کار وضع کرنا ہوگا۔
پانی کی ایماندارانہ تقسیم اس کا حل ہے لیکن اس معاملے میں اتفاق رائے تک پہنچنا زیادہ بڑی مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ تربیلا ڈیم میں دریائے سندھ سے آنے والے پانی کی آمد کا سلسلہ معمول سے بہت کم ہے۔ دریائے کابل اور چناب میں آنے والا پانی میں بھی غیرمعمولی طور پر کمی آئی ہے اور یہی صورتحال منگلا ڈیم میں آنے والے پانی کی بھی ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے کم ہے اور اِس کمی میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے جبکہ پانی کی طلب ہر سال بڑھ رہی ہے۔ ان تمام آمدوں میں پانی کے حجم میں چالیس فیصد سے زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ فیصلہ سازوں کو نوٹس لینا ہوگا کیونکہ سیاست تو بعد میں بھی کی جا سکتی ہے۔
حکومت کس سیاسی جماعت کی ہونی چاہئے اور عام انتخابات کب ہونے چاہیئں یہ سبھی امور بعد میں بھی طے ہو سکتے ہیں لیکن فوری طور پر قومی وسائل اور توجہ ’پانی کی قلت‘ سے پیدا ہونے والے بحران پر مرکوز ہونی چاہئے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ پاکستان تاریخ کے خشک ترین (موجودہ) موسم گرما کے دور سے گزر رہا ہے اور جب ایک سال قبل انہی سطور پر لکھا جا رہا تھا کہ ماہرین آئندہ برس (دوہزاربائیس) سے دوہزارتیس تک موسم گرما کی شدت میں اضافے اُور پانی کی قلت کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں تو سب اِسے غیراہم مسئلہ قرار دیتے ہوئے سنی اَن سنی کر دیتے تھے اور اکثر کہا جاتا تھا کہ وقت آنے پر دیکھا جائے گا۔
پاکستان کے جغرافیائی حالات میں دریاؤں پر انحصار کم کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ بارش سے حاصل ہونے والے پانی کو ذخیرہ کرنے پر توجہ دینا ہوگی اور اگر ہم بارشوں سے حاصل ہونے والے پانی کو محفوظ کرنے کی صلاحیت و کمال حاصل کر لیں تو اِس بحران کا واحد حل ہے۔ پاکستان میں ہر قومی مسئلہ آخر بحرانی شکل کیوں اختیار کر لیتا ہے؟ جہاں تک پانی کی قلت سے پیدا ہونے کا مسئلہ ہے تو اِس کی شدت اور ایک رخ یہ بھی ہے کہ دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں رہنے والے زیادہ بڑی تعداد میں آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں‘ جس کی وجہ سے ہیضے کی بیماری عام ہے۔ آلودہ پانی پینے سے پیدا ہونے والی بیماریاں زیادہ مہلک ہوتی ہیں اور اگر ترجیحی بنیادوں پر حفاظتی اقدامات اور بروقت علاج معالجہ نہ کیا جائے تو اِس سے جان کو خطرہ بھی لاحق رہتا ہے۔
حکومتی فیصلہ ساز صاف پانی کی فراہمی ممکن بنا صحت عامہ کے اخراجات میں نمایاں کمی کر سکتے ہیں۔ آلودہ پانی بیماریاں پھیلانے کا باعث بن رہا ہے اور یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ لوگوں کو پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے نمٹنے کے بارے میں خاطرخواہ علم نہیں ہے اور اس مسئلے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اِس سلسلے میں مختلف متعلقہ وزارتوں اور صوبائی حکومتوں کو مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔پانی کی کمی اس وقت صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا میں اس وقت پانی کی نایابی وہ مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کیلئے عالمی سطح پر کوششوں کی ضرورت ہے اور اقوام متحدہ نے اس حوالے سے تمام ممالک کو تنبیہ جاری کی ہے کہ پانی کی کمی کے حوالے سے وہ اقدامات پر توجہ مرکوز کریں تاکہ اس مسئلے کا تدارک ہو سکے۔