خبر آئی ہے کہ خیبرپختونخوا فوڈ اتھارٹی نے مختلف چھاپوں میں چکن شاپس سے 4500 سے زائد مردہ مرغیاں برآمد کرلیں۔ان مردہ مرغیوں کو مارکیٹ میں سپلائی کرنے کے لئے ذبح کرکے صاف کیا جارہا تھا۔کریک ڈاؤن کے دوران تین دکانوں کو سیل کر دیاگیاچار افراد کو موقع پرگرفتار بھی کر لیا گیا۔حکام نے برآمد کی گئی تمام مردہ مرغیوں کو تلف کردیا۔پشاور، لاہور اور ملک کے دیگر شہروں میں حرام جانوروں کو ذبح کرکے چھوٹے گوشت کی قیمت پر فروخت جاتا رہا ہے۔ ہڈیوں کے گودے اور چربی سے گھی اور کوکنگ آئل بناکر فروخت کرنے کا مکروہ دھندے کی خبریں بھی آئے روز آتی ہیں۔
دودھ میں پانی اور کیمیکل ملانا، چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے اور جانوروں کا خون، مصالحہ جات میں اینٹیں پیس کر اور لکڑی کے برادے ملانابھی ہمارے ہاں عام سی بات ہے۔ یہاں تک کہ جان بچانے والی ادویات کی بھی نقل تیار کی جاتی ہے یہ سارا غیر قانونی، غیر اسلامی اور غیر اخلاقی دھندہ مملکت خداداد پاکستان میں کھلے عام ہورہا ہے ہم نے عارضی دنیاوی فائدے کیلئے نہ صرف اسلام کی تعلیمات بلکہ اخلاقی اقدار کو بھی پامال کر دیا ہے‘ دوسری جانب اگر ہم مغربی معاشرے پر طائرانہ نظر دوڑائیں تو وہاں پر ایسے واقعات شاذ ونادر ہی پیش آتے ہیں۔
دکان سے آپ کوئی چیز خریدیں گے تو پیکٹ پر درج اجزاء اس میں موجود ہوں گے جسے دنیا کی کسی بھی لیبارٹری سے چیک کیاجاسکتا ہے۔ وہ لوگ کم تولنے، اصلی چیز کی قیمت پر نقلی چیز فروخت کرنے‘ ناجائز منافع لینے اور گاہک کو دھوکے سے لوٹنے کا تصور بھی نہیں کرتے۔چکن شاپ سے جو ساڑھے چار ہزار مردہ مرغیاں مارکیٹ کو سپلائی کی جانی تھیں ان کا گوشت ہر گھر اور ہرہوٹل میں پکنا تھا۔عام مشاہدے کی بات ہے کہ ہم کسی دکان یا ریڑھی والے سے سبزی یا پھل خریدتے ہیں تو وہ دام پورے لیتا ہے لیکن آدھا خراب مال شاپر میں ڈال کر دیتا ہے۔جب شکایت کرو تو جواب ملتا ہے کہ مال پیچھے سے خراب آتا ہے تو اس میں اس کا کیا قصور ہے۔ بالائے ستم یہ ہے کہ کچھ تو گاہک کو دھوکہ دینے کے بعد وہ شرمندگی یا ندامت محسوس کرنے کی بجائے اسے چالاکی اور مہارت سمجھتے ہیں۔اس صورتحال کو سرکاری چھاپوں کے ذریعے ٹھیک نہیں کیاجاسکتا۔سخت قوانین، عبرت ناک سزاؤں اور کردار سازی کے ذریعے ہی ان معاشرتی برائیوں پر قابو پایاجاسکتا ہے۔