بھارتی مسلمانوں کی بڑھتی تشویش

بھارت میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی مہم سرکاری وسیاسی سرپرستی میں پورے زور وشور سے جاری ہے ہندو انتہاپسندی کو فروغ دینے کے لئے مسلمانوں کے حوالے سے بعض غلط فہمیاں جس تواتر کے ساتھ پھیلائی گئی ہیں اس نے آج پورے بھارت کو ہندوانتہاپسندی کاآتش فشاں بنا کررکھ دیاہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتاہے مسلمانوں کے حوالہ سے ہندوؤں کو بارباریہ کہہ کرڈرایا جاتارہاہے کہ بھارتی مسلمانوں میں ایک سے زائد شادی کی شرح دیگر مذاہب والوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور اسی وجہ ان کے ہاں بچے بھی زیادہ پیدا ہوتے ہیں اسی لیے جلدہی بھارت مسلم اکثریت کا حامل ملک بننے والاہے اس جھوٹ نے ہندوفرقہ پرستوں کا کا م بہت آسان بنایا مگر اب خود بھارت کے اندر سے اس جھوٹ کے حوالہ سے آوازیں اٹھنے لگی ہیں خودوہاں کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کی تازہ ترین رپورٹ نے ہندوتوا عناصر کے جھوٹ کا پردہ فاش اور ان کے ذریعہ پھیلائی جانے والی گمراہی کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔
 حال ہی میں منظر عام پر آنے والی رپورٹ نے واضح کردیا ہے کہ مسلم آبادی میں اضافہ کی شرح کم ہوئی ہے نہ کہ بڑھی ہے جیسا کہ باور کرایا جاتا ہے اور اس بنیاد پر غیر ضروری تاویلات پیش کرکے اکثریتی اور اقلیتی طبقات میں خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ فرقہ پرستوں کا کوئی نیا ہتھکنڈہ نہیں ہے۔ وہ عرصہ دراز سے سیاسی مفادات کے تحت اکثریتی فرقہ یعنی ہندوؤں کے ذہن پر یہ بات نقش کردینے پر تْلے رہتے ہیں کہ عنقریب ملک میں مسلمانوں کی آبادی، ہندوؤ ں کی آبادی سے زیادہ ہوجائیگی، مسلمان اکثریت میں ہوں گے اور حکومت اْن کی ہوگی۔ہرچند کہ ماہرین نے ماضی میں بھی اور اِدھر چند برسوں میں بھی تواتر کے ساتھ اس کی نفی کی ہے۔
 بھارت سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے، جو آبادیات کے ماہر ہیں، اپنی کتاب ”دی پاپولیشن متھ“ (آبادی کا مفروضہ) میں کہا تھا کہ اقلیتی آبادی کے غالب آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اْنہوں نے حصول آزادی کے بعد کی سات دہائیوں کے اعدادوشمار کا جائزہ لیتے ہوئے بہت تفصیل سے بتایا تھا کہ مسلم آبادی ہی کی طرح مسلمانوں کی ایک سے زائد شادی بھی مفروضہ ہے۔ کتاب ہذا کے مطابق مسلمانوں میں ملک کی دیگر قوموں کے مقابلے میں تعدد ازواج سب سے کم ہے۔ تعدد ازواج کا رجحان سب سے زیادہ قبائلی آبادی میں 25.15فیصد، اس کے بعد بدھ برادری میں 9.7فیصد، اس کے بعد جین برادری میں 6.72فیصد، پھر ہندو برادری میں 5.8 فیصد اور سب سے کم، مسلمانوں میں 5.7فیصد ہے۔
 کتاب میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارت میں تعدد ازواج کے تقویت پانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ سات دہائیوں میں کے اعدادوشمار شاہد ہیں کہ خواتین کی آبادی مردوں کی آبادی سے کم ہی رہی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے 1974میں سوشل ویلفیئر منسٹری کے ذریعہ کرائے گئے ایک سروے کا بھی حوالہ دیا تھا جس سے منکشف تھا کہ تعدد ازواج یا تعدد ازدواج کا رجحان سب سے کم مسلمانوں میں ہے۔ اس کے باوجود ہندو فرقہ پرستوں کا پروپیگنڈہ جاری رہا جو من مانے طریقے سے سا ل بھی طے کرتے رہے۔ کبھی کہا 2029 تک اور کبھی کہا کہ2035 تک اقلیتی فرقے کی آبادی اکثریتی فرقے سے زیادہ ہوجائیگی۔ کبھی براہ راست یہ بات نہیں کہی تو دوسرا راگ الاپا کہ ملک کے وسائل کا بڑا حصہ مسلمانوں کے مصرف میں رہتا ہے۔ جب سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے وسائل سے محروم طبقات ِ آبادی کی بابت کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا ہونا چاہئے تو اتنا طومار باندھا گیا کہ خدا کی پناہ۔ منموہن سنگھ کا بیان کسی وضاحت کا محتاج نہیں تھا۔ اسے سیاق و سباق کے بغیر پھیلایا گیا۔ 
مقصد اکثریتی طبقے کو ورغلانا تھا جبکہ منموہن سنگھ نے ”مساوی حق“ اور اسے یقینی بنانے کیلئے ”ندرت آمیز طریقے“ تلاش کرنے کی بات کہی تھی غیر جانبدار مبصرین اس امر پرمتفق ہیں کہ بھارت کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کی زیر بحث رپورٹ کے باوجود ملک کے فرقہ پرست اپنے پروپیگنڈے پر قائم ہی رہیں کیونکہ انہیں حقائق، اعدادوشمار، رپورٹس اور دستاویزات سے کچھ لینا دینا نہیں۔ صرف جھوٹ سے سروکار ہے بدتر ہوتے حالات کی وجہ سے بھارتی مسلمانوں میں تشویش بڑھتی جارہی ہے بھارتی مسلمانوں میں بڑھتی تشویش کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں بابری مسجد کا فیصلہ، تین طلاق مخالف قانون، ہجومی تشدد، این آر سی، سی اے اے، مسلم نام والے شہروں کے ناموں کی تبدیلی، مہتم بالشان شخصیات کے خلاف بددماغی، یاوہ گوئی، فرقہ پرستوں کا ہذیان، دھمکیاں، مزید دھمکیاں،، طعن و تشنیع، میڈیا کا مخاصمانہ رویہ، شامل ہیں واقعات کی یہ فہرست حجاب کی مخالفت اور مسلم دکانداروں کے بائیکاٹ کے حالیہ واقعات تک پہنچتی ہے۔
 تازہ تنازع لاؤڈ سپیکر پر اذان کا ہے۔ بھارت میں اس وقت ہندوبنیاد پرستی کی سیاست سر چڑھ کربول رہی ہے۔ بی جے پی لیڈرشپ کو یقین ہو گیا ہے کہ ہندوتوا کے سوا اس کے ہاتھ میں کوئی اور کارڈ ہی نہیں ہے مبصرین کے مطابق بی جے پی کی لیڈر شپ جو کچھ کر رہی ہے، اس کے سوا کچھ اور کر بھی نہیں سکتی۔ بی جے پی لیڈر شپ پورا زور لگارہی ہے کہ کسی طرح ہندوتوا کا یہ شور ان چند ریاستوں میں بھی مچنے لگے جہاں غیر بی جے پی حکومتیں قائم ہیں بی جے پی لیڈر شپ پوری طاقت لگا رہی ہے کہ کسی طرح غیر بی جے پی والی ریاستوں میں بھی یہ روگ پھیل جائے بی جے پی کی فتنہ انگیزیوں کی خبر اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری تک پہنچ چکی ہیں اور انہوں نے حکومت ہند کو اس بابت وارننگ بھی دی ہے۔ عید کے دن وہائٹ ہاؤس میں عیدملن کی تقریب میں جو بائیڈن نے چند ملکوں میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک پر شدیدتشویش کا اظہار کیا۔ ظاہر ہے ان کااشارہ بھارت کی طرف تھامگر بدقسمتی سے بھارتی مسلمانوں کے المیہ کی طرف سے عملی طورپر پوری عالمی برادری نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اورتواور خود مسلمان ممالک کی حکومتیں بی جے پی کے ساتھ تعلقات بڑھانے کیلئے بھارتی مسلمانوں پر تنگ ہوتا عرصہ حیات نظر انداز کررہی ہیں۔