خیبرپختونخوا حکومت نے علاج معالجے سے متعلق طبی سہولیات اور مالی امداد کیلئے قائم ’انڈومنٹ فنڈ‘ سے متعلق قانون ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ صوبے کی پوری آبادی کو ”صحت کارڈ پلس“ کے ذریعے ”مفت“ علاج معالجے کی سہولیات فراہم کر دی گئی ہیں اور عمومی مشاہدہ تھا کہ صحت کارڈ کی موجودگی میں ’ایڈومنٹ فنڈ‘ سے مالی وسائل ضائع ہو رہے تھے۔ مذکورہ فنڈ سال دوہزارچار میں منظور کئے گئے ایک قانون ”خیبرپختونخوا (میڈیکل ریلیف) انڈومنٹ فنڈ ایکٹ“ کے نام سے قائم کیا گیا تھا تاکہ غریب اور مستحق افراد کو صحت کی مفت سہولیات فراہم کی جا سکیں اور اس فنڈ کا ابتدائی سرمایہ پچاس کروڑ (پانچ سو ملین روپے) رکھا گیا تھا جسے بعد میں مخیر حضرات کی جانب سے عطیات اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ذریعے بڑھایا گیا جبکہ اس سے حاصل ہونے والا منافع بعض بیماریوں میں مبتلا مستحق افراد کے علاج کے اخراجات ادا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔
مذکورہ قانون منسوخی کے لئے خیبر پختونخوا اسمبلی سیکرٹریٹ میں مسودہئ قانون (بل) پیش کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چونکہ صوبائی حکومت ”صحت کارڈ پلس پروگرام“ کے ذریعے صوبے کے تمام مستقل رہائشی خاندانوں کو صحت کا تحفظ فراہم کر رہی ہے جس میں صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کے پہلے سے طے شدہ پیکج تک مساوی رسائی کی ضمانت دی گئی ہے۔صحت کارڈ پلس کے تحت فراہم کردہ یونیورسل ہیلتھ کوریج کی موجودگی میں ”خیبر پختونخوا میڈیکل ریلیف ایکٹ 2004ء“ علاج معالجے کا متوازی طریقہ کار غیر ضروری تھا اور ایک عرصے سے اِسے منسوخ کی جانب توجہ دلائی جا رہی تھی۔ بل میں کہا گیا ہے کہ جب اسے اسمبلی سے منظور کیا جائے گا اور مطلوبہ رسمی کاروائیوں کی تکمیل کے بعد نافذ ہو گا تو ’انڈومنٹ فنڈ‘ فوری طور پر صوبائی کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں منتقل ہو جائے گا اور محکمہ صحت فنڈ سے متعلق آڈٹ اعتراضات کو حل کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔
کے پی (میڈیکل ریلیف) انڈومنٹ فنڈ ایکٹ کے تحت حاصل ہونے والے منافع کو اوپن ہارٹ سرجری‘ انجیو پلاسٹی‘ پیس میکر لگانے‘ سرطان‘ ایڈوانس رینل فیلیئر‘ گردوں کی صفائی (ڈائلیسس)‘ یرقان (ہیپاٹائٹس)‘ تھیلیسیمیا اور جلے ہوئے غریب مریضوں کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال‘ خیبر ٹیچنگ ہسپتال‘ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس‘ پشاور میں انسٹی ٹیوٹ آف ریڈیو تھراپی اینڈ نیوکلیئر میڈیسن اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خان‘ سیدو ہسپتال سوات‘ ایوب ٹیچنگ اسپتال ایبٹ آباد اور مردان میڈیکل کمپلیکس میں طبی امداد دی جا رہی تھی۔ زیر بحث انڈومنٹ فنڈ کا مقصد صحت کارڈ پلس پروگرام کے برعکس بعض علاج گاہوں میں صرف غریب اور زکوٰۃ کے مستحق افراد کے علاج معالجے کو آسان بنانا تھا جس میں صوبے کے تمام 77 لاکھ خاندانوں کو سہولیات فراہم کی گئیں۔
میڈیکل ریلیف انڈومنٹ فنڈکو برقرار رکھنے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ صحت کارڈ پلس کی موجودگی میں پیسوں کا ضیاع ہو رہا تھا جو تمام خاندانوں کو ان کی مالی حیثیت سے قطع نظر مفت صحت خدمات کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔ مذکورہ فنڈ کے تحت غریب مریضوں کو صرف آٹھ ہسپتالوں میں علاج معالجے کی مفت خدمات حاصل تھیں لیکن صحت کارڈ پلس اقدام کے تحت مفت علاج کی سہولت 200 سے زائد مقررہ ہسپتالوں میں تمام آبادی کو دستیاب ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ صحت کارڈ پلس کے آغاز کے بعد سے صوبائی حکومت گیارہ لاکھ مریضوں کے علاج معالجے پر 25 ارب روپے خرچ کر چکی ہے اور صوبے کا ہر خاندان سرکاری اور نجی دونوں طرح کے کسی بھی نامزد ہسپتال میں سالانہ دس لاکھ روپے تک کا مفت علاج کروا سکتاہے۔
خیبرپختونخوا میں ’تحریک ِانصاف حکومت‘ کے گرانقدر اقدامات میں ’صحت کارڈ پلس‘ سرفہرست ہے جس کے اگلے مرحلے میں عمومی علاج (او پی ڈی) بھی مفت کرنے کے حوالے سے سوچ بچار جاری تھی کہ وفاقی حکومت تبدیل ہو گئی جس کے بعد سے حکمراں اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی ترجیحات تبدیل ہو گئی ہیں اور اب سیاسی جماعتوں کو دو واضح گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک وہ ہیں جو قبل از وقت عام انتخابات کے حق میں ہیں اور دوسرے وہ جو عام قبل از وقت عام انتخابات نہیں چاہتے اور اِس صورتحال میں عام آدمی کو فراہم کی جانے والی سہولیات اور اِن سہولیات کے معیار میں اضافے پر خاطرخواہ توجہات مرکوز نہیں ہیں۔ یہی تقسیم عام آدمی (ہم عوام) میں بھی دکھائی دیتی ہے جن کے ایک طبقے کے لئے انتخابات ضروری اور دوسرے طبقے کے لئے انتخابات مسئلے کا حل نہیں۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی افراط زر سے گھرانوں کی حقیقی قوت خرید میں کمی آئی ہے جس سے غریب اور کمزور گھرانے غیر متناسب طور پر متاثر ہو رہے ہیں اور عام آدمی کی آمدنی کا بڑا حصہ اشیائے خوردونوش پر خرچ ہونے لگا ہے۔ عالمی بینک نے اپنی میکرو پاورٹی آؤٹ لک فار پاکستان رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ ”سیاسی کشیدگی سے معاشی عدم استحکام جنم لیتا ہے جبکہ ملک کی آمدنی و اخراجات عدم توازن کا شکار ہوتا ہے اور اِس عمل سے ”میکرو اکنامک“ یعنی انتہائی نچلی سطح پر معاشی عدم توازن کے اثرات سرایت کر جاتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت میں آمدنی کے لحاظ سے بالائی طبقات کے مقابلے زریں طبقات زیادہ متاثر دکھائی دیتے ہیں جو عالمی مالیاتی حالات میں توقع سے زیادہ سختی‘ توانائی کی عالمی قیمتوں میں اضافے پر اضافہ اور کورونا وبا کے باعث پابندیوں کے باعث معیشت کی زبوں حالی شامل ہے۔
جاری مالی سال دوہزار اکیس بائیس کے مقابلے دوہزار بائیس تیئس کے لئے کم سے کم مہنگائی کی شرح سولہ فیصد بتائی گئی ہے جبکہ قومی پیداوار میں شرح نمو ’چار اعشاریہ چار فیصد‘ رہنے کی توقع ہے جو قومی ضروریات کے لئے کافی نہیں۔ ایک ایسی صورتحال جس پر معاشی مندی کے اثرات طاری ہیں اور ایک ایسی صورتحال جس پر سیاسی عدم استحکام کے بادل سایہ کئے ہوئے ہیں تو ضرورت ’صبح ِنو‘ کی ہے ایک ایسی نئی صبح جو عام آدمی (ہم عوام) کے لئے مہنگائی اور معاشی غیریقینی کے اختتام کی نوید لئے طلوع ہو۔