ہنگامی حالات 

گرمی کی جاری اور متوقع شدید لہر (مزید گرمی) کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت ِقومی صحت (این ایچ ایس) اور قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) نے الگ الگ ہدایات (ایڈوائزری) جاری کرتے ہوئے تعلیمی اداروں اور عوام کو متعدد اقدامات کا مشورہ دیا ہے تاکہ وہ خود کو گرامی کی لہر (ہیٹ ویو) کے انتہائی بُرے (جان لیوا) اثرات سے بچا سکیں اور ایسا کرنے کی ضرورت اِس لئے پیش آئی ہے کہ ماضی میں صرف چند ایک شہروں کا ہی درجہئ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ کو چھوتا تھا لیکن اِس مرتبہ موسم گرما کے آغاز پر متعدد شہروں میں پچاس ڈگری گرمی ریکارڈ کی گئی ہے جو اِس لحاظ سے تشویشناک ہے کہ ابھی جون اور جولائی کے مہینے باقی ہیں! رواں ہفتے کے لئے محکمہئ موسمیات کی پیشگوئی کے مطابق گرمی کی موجودہ لہر کل (اٹھارہ مئی) تک جاری رہنے کا امکان ہے۔ جاری کردہ ہدایات کا مقصد متعلقہ حکام اور تعلیمی اداروں کو احساس دلانا ہے کہ وہ ’ہیٹ ویو‘ سے بچنے کی تیاری اور ان سے متعلقہ علاقوں میں ’ہیٹ سٹروک‘ کے واقعات سے نمٹنے لئے مناسب اور پیشگی اقدامات و تیاریاں کریں۔ این آئی ایچ نے اپنی ایڈوائزری میں تعلیمی اداروں کے طلبہ کو شدید گرمی کے اثرات‘ اِس سے پیدا ہونے والی بیماریاں کم کرنے اور سکولوں کو مزید شدت کی گرمی جیسے خطرے سے نمٹنے کیلئے تیار رہنے کیلئے چند اقدامات تجویز کئے ہیں جیسا کہ گرمی کی وجہ سے بیماریوں سے بچانے کیلئے طلبہ کو ٹھنڈے اندرونی ماحول میں رکھنا سب سے مؤثر طریقہ ہے، جبکہ شدید گرمی کے دوران سرگرمیوں کیلئے اندرونی جگہوں کا استعمال کرنا طلبہ کو بچانے کا بہترین طریقہ ہے۔ مزید کہا گیا کہ بیرونی کھیل کی جگہوں کو ڈھکنے کیلئے مصنوعی شیڈز جیسا کہ خیمہ‘ چھتری اور ترپال کا استعمال کیا جانا چاہئے۔

تعلیمی اداروں کو پانی کے کولروں کی تعداد میں اضافے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اِسی طرح بجلی کے پنکھوں کی درستگی یقینی بنانے اور پینے کے پانی کی وافر دستیابی پر زور دیا گیا ہے۔  گرمی سے بچاؤ کے اقدامات میں کوتاہی جان لیوا ہو سکتی ہے کیونکہ گرمی سبب جسمانی جلد خشک و کمزور ہونے کے ساتھ سستی‘ بخار‘ سردرد اور دل کی دھڑکن تیز ہو سکتی ہے اور ”ہیٹ سٹروک“ معذوری کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ وفاقی وزارت ِقومی صحت اور قومی ادارہ صحت کی جانب سے جاری ہدایات اگر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو بھی جاری کی جائیں تو یہ یکساں مفید رہیں گی تاکہ دن بالخصوص تعلیمی اداروں کے اوقات میں بجلی کے طویل تعطل سے گریز کیا جائے۔پاکستان کیلئے صرف گرمی کی لہر ہی نہیں بلکہ دیگر وجوہات کی بنا پر بھی تعلیم و صحت کے شعبوں میں ”ہنگامی حالات“ کا سامنا ہے۔ تحریک انصاف حکومت  میں گزشتہ برس پہلے گریڈ سے پانچویں گریڈ (درجات) کیلئے یکساں نصاب متعارف کروایا گیا لیکن تحریک انصاف حکومت کے ختم ہونے کے ساتھ ”یکساں قومی نصاب ِتعلیم“ پر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ رواں ماہ کے اوائل میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اعلان کیا تھا کہ حکومت نئے نصاب کا حتمی جائزہ لینے کیلئے ملک کے اعلیٰ ماہرین کے ساتھ قومی نصاب سربراہ اجلاس منعقد کرے گی۔ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملک میں ہر سطح پر نصاب ِتعلیم کو بہتر بنانے کیلئے سنجیدہ عملی کوششیں ہونی چاہئیں لیکن یہ اقدامات نمائشی نہ ہوں۔ حقیقت اور ضرورت یہی ہے کہ معیاری تعلیم یقینی بنائی جائے۔ ماہرین تعلیم سے مشاورت کے  ساتھ نئی حکومت کو اس بات پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کے نظام کو کیسے بہتر بنایا جائے کہ وہ نجی اداروں کے ہم پلہ ہو جائیں۔۔ جب ہم یکساں نظام تعلیم کی بات کرتے ہیں تو اِس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ تمام طلبہ کو مساوی مواقع ملنے چاہیئں‘اُنہیں معیاری تعلیم ملنی چاہئے۔ کیا ’سنگل نیشنل کریکولم (ایس این سی)‘ کے ذریعے معیاری و یکساں تعلیم کی فراہمی کا ہدف حاصل ہو رہا ہے؟

کیا ’ایس این سی‘ تعلیم کی سطح کو اٹھانے میں کامیاب رہی ہے؟ کچھ نصابی کتابوں کے تنقیدی جائزوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ صرف یکساں نصاب تعلیم جیسی مشق سے تعلیمی معیار بہتر نہیں ہوگا۔ بنیادی طور پر یہ بات حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کو اچھے علاج معالجے‘ صحت کے بہتر سہولیات و مراکز یا پبلک ٹرانسپورٹ (عوامی نقل و حرکت) کے باسہولت نظام کی طرح فراہم (بندوبست) کرے۔ کوئی بھی حکومت جو اگلے انتخابات کے بعد اقتدار میں ہے یا اقتدار میں آ سکتی ہے اسے سب سے زیادہ توجہ تعلیم پر دینی چاہئے۔ پاکستان کی اکثریتی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے‘ جنہیں اگر معیاری تعلیم نہیں دی جائے گی تو وہ تیزی سے تبدیل ہونے والی دنیا کے ساتھ نہیں چل پائیں گے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا صرف ’واحد (یکساں) قومی نصاب“ ہی سرکاری تعلیمی اداروں کی ناقص (سوالیہ) کارکردگی کا معیار بہتر بنانے کیلئے کافی ہے؟ نجی تعلیمی اداروں کا مطالبہ ہے کہ نصاب تعلیم منتخب کرنے میں ہر ادارے کو خودمختار بنایا جائے کہ وہ اپنی پسند کی نصابی کتابوں اور ضمنی تعلیمی مواد کا انتخاب کر سکیں کیونکہ یکسانیت تنوع کو ختم کرتی ہے یقینا تعلیمی نصاب پر غور و فکر کا عمل جاری رہنا چاہئے لیکن اِس سلسلے میں جو پیشرفت سابقہ دور حکومت  میں ہو چکی ہے اُسے واپس لینے کی بجائے اِس میں موجود خامیاں (اگر ہیں تو) دور کی جائیں۔ قومی و صوبائی سیاسی فیصلہ سازوں کو سمجھنا چاہئے کہ تعلیم کا تعلق ملک کے مستقبل سے ہے اور اِس نازک و حساس شعبے کے ساتھ سیاست کرنا کسی بھی صورت ٹھیک نہیں۔ تعلیم سنجیدہ و سنگین معاملہ ہے جسے سیاست سے بہرصورت و بہرحال الگ رکھنا چاہئے۔