بیرونی قرضوں کا استعمال

خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لئے گئے 598ارب روپے کے قرضوں کا معاملہ صوبائی اسمبلی تک پہنچ گیا۔صوبائی ایوان نے معاملہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گذشتہ  روز صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں  وقفہ سوالات کے دوران خاتون رکن ریحانہ اسماعیل نے محکمہ خزانہ کی ایک دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صوبے پر بین الاقوامی قرضوں کا ناقابل برداشت بوجھ پڑچکا ہے۔ جواب میں صوبائی وزیر خزانہ نے بتایاکہ خیبر پختونخوا واحد صوبہ ہے جس نے مقامی بینکوں سے کوئی قرضہ نہیں لیا، صوبائی حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے اس لئے قرضہ لیا ہے کیونکہ ان قرضوں کی واپسی کا عرصہ 30سے 40سال ہے، رواں سال بھی صوبائی حکومت نے10ارب روپے کی ادائیگی کی ہے، وزیر خزانہ نے کہاکہ میگا پراجیکٹس کیلئے قرضے لینے پڑتے ہیں، موجودہ حکومت نے تین سالوں میں صوبہ کی آمدن30 ارب سے بڑھا کر60ارب روپے کردی ہے۔بی آر ٹی سے لوگوں کو روزگار ملا ہے اور اہل پشاور میں بہترین سفری سہولیات میسر آئی ہیں، غیر ملکی قرضوں سے پن بجلی کے منصوبے شروع کئے ہیں جن سے صوبہ کی آمدن میں اضافہ ہوگا، پشاور ڈیرہ اسماعیل خان موٹر وے کیلئے300ارب کا قرضہ لیا جارہا ہے جس سے صوبہ میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا، طویل بحث کے بعد قرضوں کامعاملہ انکوائری کیلئے قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیاگیا۔بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے ترقیاتی منصوبوں کیلئے قرضہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، جاپان،ہالینڈ، فرانس اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی لیتے رہتے ہیں، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، پیرس کلب، ایشیائی ترقیاتی بینک، اسلامی ترقیاتی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے مختلف ملکوں کو قرضے دینے کے لئے ہی بنائے گئے ہیں۔ یہ قرضے مالیاتی ادارے اپنی شرائط پر دیتے ہیں قرضے دینے والے کو اس کی واپسی کی ضمانت درکار ہوتی ہے۔پاکستان پر غیر ملکی قرضوں کا حجم ایک کھرب اٹھارہ ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ حالیہ سالوں میں پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے چھ ارب ڈالر قرضوں کا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت تین ارب ڈالر پاکستان کو مل چکے ہیں جبکہ باقی ماندہ تین ارب ڈالر کیلئے شرائط پر مذاکرات جاری ہیں موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ قرضوں کا حجم بڑھانے کی بھی بات کی ہے۔ صوبائی حکومت کے مطابق بیرونی قرضوں سے بی آر ٹی سروس شروع کی گئی۔صوبے بھر میں ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کیلئے جنگلات لگائے گئے۔چھوٹے ڈیم اور بجلی گھر تعمیر کئے گئے، سڑکیں بنائی گئیں۔صنعتوں کو مراعات دی گئیں صحت اور تعلیم کے شعبوں کی بہتری اور اداروں کی اصلاحات پر خرچ کی گئیں۔کورونا وباء کے دوران لوگوں کے مفت علاج اورمرنے والوں کے لواحقین کو امداد دی گئی۔ احساس پروگرام کے تحت نادار لوگوں کی مالی مدد کی گئی۔یہ ایسے مدات ہیں جن سے پاکستان کا عام شہری مستفید ہوا ہے۔  حقیقت یہ ہے کہ قرض لے کر انہیں مفید اور عوام کو سہولیات کی فراہمی کے منصوبوں میں لگانا اور ترجیحاً ایسے منصوبوں میں لگانا کہ جن کے ذریعے اس کی واپسی کے وسائل بھی پیدا ہوں کوئی غلط پالیسی نہیں بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی ایسی سہولیات سے فائدہ اٹھانا ناگزیر ہے جن کے ذریعے ترقی و خوشحالی کے راستے کھلتے ہیں۔