بدقسمتی سے وطن عزیز میں انتخابات کی تاریخ رہی ہے کہ اِن کے انعقاد پر اربوں روپے خرچ ہونے کے ساتھ اِس عمل کی شفافیت سے وابستہ عوام کی توقعات کبھی بھی پوری نہیں ہوئیں۔ اِس مرحلہئ فکر پر یہ امر بھی واضح نہیں ہے کہ آئندہ عام انتخابات کب ہوں گے تاہم سیاسی قائدین کے بیانات سے عیاں ہے کہ اندرون و بیرون ملک انتخابات کے حوالے سے سوچ بچار کا عمل جاری ہے اور اِس دوران معاشی بہتری کا کوئی بھی اقدام (مشکل فیصلہ) نہ کرنے پر بھی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے ”اسلام آباد مارچ“ سے قبل عام انتخابات کا اعلان متوقع ہے کیونکہ ایسی صورت میں تحریک انصاف زیادہ بڑا مسئلہ بن جائے گی۔مسلم لیگ نواز کی قیادت چاہتی ہے کہ حکومت کا حصہ‘شراکت دار جماعتیں بھی کچھ ذمہ داریاں اور بوجھ اپنے کندھوں پر لیں۔ فی الوقت حزب اقتدار کے ہاں 3 قسم کے بیانیے پائے جاتے ہیں۔ پہلا تحریک انصاف کی مقبولیت کا مذاق اور اُن کی تین سالہ کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنانا ہے۔ دوسرا معاشی بہتری کیلئے اقدامات کے سلسلے میں باہمی مشاورت کی اہمیت پر زور دیا جا رہا ہے اور تیسرا آئندہ عام انتخابات تحریک انصاف کے خلاف متحد ہو کر لڑنے کی سوچ کو عملی عملی جامہ پہنایا جائے جو موجودہ حالات میں یقینا آسان نہیں ہے کیونکہ مخلوط حکومت میں شامل کوئی ایک بھی سیاسی جماعت نہ تو اپنی شناخت سے ہاتھ دھونا چاہتی ہے اور نہ ہی مفت میں طعنے بٹورنا پسند کرے گی‘ جو ساری زندگی اُس کا پیچھا کریں۔اس وقت سیاسی عدم استحکام نے معیشت کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ جب نئی حکومت اقتدار میں آئی تو بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ مخلوط حکومت اپنی آئینی مدت (ڈیڑھ برس) ضرور مکمل کر لے گی اور قبل از وقت انتخابات کی نوبت نہیں آئے گی لیکن ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آرہا۔ پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات ڈھکی چھپی نہیں جن سے نمٹنے کے لئے اگر حکومت اپنے اخراجات اور وزرأ کی تعداد میں پچاس فیصد کمی نہیں کرتی اور اِس بحران سے نکلنے کیلئے سخت معاشی فیصلے بھی نہیں کئے جاتے تو ایسی صورت میں عام انتخابات ”راہئ نجات“ ثابت نہیں ہوں گے۔قبل از وقت اور قومی سطح پر انتخابات ہر کوئی چاہتا ہے
لیکن اِس پورے سیاسی ہنگامے سے الگ کھڑی پیپلزپارٹی انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات چاہتی ہے جو ایک عرصے سے پیپلزپارٹی کا مؤقف رہے ہیں اور اِن اصلاحات کو کرنے کیلئے مہینے نہیں بلکہ دن اور چند ہفتے درکار ہیں۔ موجودہ غیریقینی حالات میں بجٹ سے قبل اسمبلیاں تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کا اعلان بھی بحث کا موضوع ہے۔ ہے اور پیپلزپارٹی واحد ایسی سیاسی جماعت جو انتخابات کی بجائے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے پر زور دیتے ہوئے ”سخت فیصلوں“ کا مطالبہ کر رہی ہے تاہم نواز لیگ کی عام انتخابات اور معیشت کے بارے میں رائے مختلف ہے اور وہ تحریک انصاف کو حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتی کیونکہ مخلوط حکومت میں شامل متحدہ (ایم کیو ایم پاکستان) بھی قبل ازوقت انتخابات ہی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ جب اور جہاں کہیں مشکل معاشی فیصلوں کی بات کی جاتی ہے تو اِس سے مراد پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوتا ہے۔ مشکل معاشی فیصلوں کو زیادہ مشکل بنانے میں گیس کی قلت کا بھی عمل دخل ہے اور ’سی این جی‘ کی قیمت 300 روپے جیسی تاریخ کی بلندترین سطح پر پہنچنے کے بعد گیس سٹیشنوں نے فروخت بند کر دی ہے! سیاست و معیشت کا یہ ایک انتہائی نازک مرحلہ ہے جس میں ایک طرف مخلوط حکومت کے اتحادیوں میں ناراضگی کے آثار نمایاں ہیں تو دوسری طرف یہ سوال سر اُٹھا رہا ہے کہ اگر عام انتخابات جیسی کوشش کے بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہ ہوئے تو پاکستان کی معاشی مشکلات کا حل کیسے تلاش کیا جائے گا؟
اب عوام یہ سوال نہیں کر رہے کہ ”معاشی بحران آخر آیا کیوں؟“ عام آدمی کے نکتہئ نظر سے موجودہ مخلوط حکومت میں شامل جماعتیں الگ الگ نکتہئ نظر کے ساتھ معاشی بحران حل نہیں کر سکتیں لیکن وہ ایسا کر سکتی ہیں اگر تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر معاشی مشکلات سمیت اُن سبھی مسائل کا حل تلاش کریں‘ جو کسی بھی وجہ سے بحرانی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ پاکستان میں پانی کی شدید ترین قلت نے موسم گرما کے آغاز ہی سے دستک دیدی ہے‘ جس کی وجہ سے ”قومی مشکل فیصلوں“ میں بڑے آبی ذخائر کی تعمیر بھی شامل ہے۔ زراعت کی خراب صورتحال اور غذائی عدم تحفظ آنے والے دنوں میں زیادہ بڑی مشکلات کا باعث دکھائی دے رہا ہے اور ایسی صورت میں مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کا متحد رہنا اہم ہے کیونکہ کوئی ایک بھی سیاسی جماعت معاشی بہتری جیسا کڑا امتحان تن تنہا دینا نہیں چاہتی اور نہ ہی تن تنہا اِس امتحان میں کامیاب (عوام کی نظروں میں سرخرو) ہو سکتی ہے کیونکہ معاشی اصلاحات کا سارا بوجھ عام آدمی (ہم عوام) پر منتقل کرنا پڑے گا‘ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت عوام مہنگائی کے جس بوجھ تلے دبے ہوئے اس میں اضافے کی گنجائش ہرگز نہیں اس لئے ضروری ہے کہ عوام پر بوجھ ڈالنے کی بجائے ان کو ریلیف دیا جائے۔