افغان مریضہ اور پشاور کا ڈاکٹر

افغانستان کے کسی دور دراز نامعلوم گاؤں سے ایک معمر خاتون اور انکے شوہر گزشتہ کئی ماہ سے پشاور کے ایک ڈینٹل سرجن کو تحائف بھیج رہے ہیں اس گاؤں سے آنے والا خاتون کا رشتہ دار کوئی ٹیکسی ڈرائیور یا کوئی پشاور آنے والا اجنبی  مذکورہ کے دروازے پر دستک دے کر پھلوں‘ خشک میوے‘ مٹھائی وغیرہ کا ٹوکراچھوڑ کر خاتون اور انکے شوہر کی طرف سے شکریہ ادا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے گزشتہ کئی ماہ کے دوران ایسا کم از کم سات مرتبہ ہوا ہے یہ اس معمر افغان خاتون کاشکر گزاری اور احسان مندی کا اظہار ہے اس خدمت‘ محبت اور عقیدت کا جس کا نوجوان ڈاکٹر اور اسکے ساتھیوں نے خاتون کے پشاور کے مقامی ہسپتال میں علاج کے دوران مظاہرہ کیا تھا خاتون اپنے شوہر کے ہمراہ دو ماہ تک پشاور کے مقامی ہسپتال میں زیر علاج رہیں جہاں دوسرے ڈاکٹرز‘ نرسز کے ساتھ ساتھ نوجوان ڈینٹل سرجن نے ان کے منہ کے کینسر کاعلاج کیا اس دوران اس خاتون سے ایسی انسیت ہوئی کہ کئی ڈاکٹر اور نرسز ان کا خیال رکھنے لگے  تاہم مذکورہ ڈاکٹر ان کا زیادہ خیال رکھتے۔ضرورت پڑی تو اپنی گاڑی میں خاتون کو لیبارٹری اور دوسری جگہ لے کر گئے انکے دو ماہ قیام کے آخری دنوں میں جب معمر مہمان جوڑے کے پاس پیسے ختم ہوگئے تو ڈاکٹر نے ان کے علم میں لائے بغیر چھوٹے موٹے بل اپنی جیب سے ادا کئے اور علاج مکمل ہونے پر انہوں نے خاتون کو ایک مہمان کی طرح واپس اپنے ملک رخصت کیا چند دنوں بعد ان خاتون کی طرف سے افغانستان سے آنے والے ایک شخص کے ذریعے نوجوان ڈاکٹر کے گھر پہلا تحفہ آیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے

خاتون اور ان کا خاندان اس محبت عقیدت‘ دیکھ بھال  پر شکریہ ادا کرتے ہیں جس کا پشاور کے طبی عملے نے مظاہرہ کیا طب کا شعبہ انسانیت کی خدمت کا شعبہ ہے ڈاکٹر کے پاس یا ہسپتال میں وہ لوگ آئے ہیں جن کو محبت‘ حوصلہ افزائی اور اچھی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے بدقسمتی سے سرکاری اور نجی ہسپتالوں‘ کلینک اور شفاخانوں میں کچھ ایسے سینئر اور جونیئر ڈاکٹریادیگر عملہ پایا جاتا ہے جو مریض کا خیال رکھنے کی بجائے وقت گزرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگرچہ بہتر علاج ان کا خیال رکھنا اور انکو وقت دینا ان کا فرض ہے اور اسی کیلئے وہ تنخواہ یا فیس وصول کرتے ہیں جو ڈاکٹر اور طبی عملہ مریضوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتا ہے غور سے انکے مسائل سنتا اور دل سے ان کا علاج کرتا ہے ان ڈاکٹروں کی نجی زندگی کا مشاہدہ کیا جائے تو وہ زیادہ پرسکون‘ خوش اور خوشحال ہوتے ہیں بہ نسبت ان کے جو  صرف تنخواہ یا فیس کیلئے ڈاکٹر بنتے ہیں اور مریض کا مسئلہ حل کرنے سے زیادہ اپنی آمدن میں اضافہ کا سوچتے ہیں  خدا کرے کہ ہمارے ہاں ہسپتالوں‘ تھانوں کچہریوں میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہو جو آنے والے افراد کی مشکلات کا خیال رکھیں جن کے دل میں خوف خدا ہو جو انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں خدا کرے کہ ہم بہت سے ڈاکٹر جنید پیدا کریں جن کیلئے لوگ دوسرے ملکوں سے دعائیں بھیجیں زندگی میں صرف پیسہ ہی سب کچھ نہیں لوگوں کی دعائیں انکی محبتیں‘ ان کا خلوص ہم سب کی زندگی بدلنے میں زیادہ بڑا کردار ادا کرسکتی ہیں،ڈاکٹر جنید کے مطابق ان کے تمام بہن بھائی اور اہلیہ کے علاوہ خاندان کے20افراد ڈاکٹر ہیں اور ان سب کوان کے والد کی یہی تاکید ہے کہ پیسے کی بجائے خدمت پر توجہ دیں۔