پاکستان میں غیرمتوقع طور پر ”شدید گرمی کی لہر (ہیٹ ویو)“ جاری ہے جس کے بارے میں ”نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)“ نے متنبہ کر رکھا ہے تاہم اُمید اور اندازہ یہ تھا کہ یہ لہر ”دس سے سترہ مئی تک“ رہے گی اور اِس کے بعد گرمی معمول پر آ جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا اور ملک کے کئی شہروں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت بدستور 45 ڈگری سینٹی گریڈ (113 درجے فارن ہائیٹ) سے تجاوز کرنے پر قائم ہے۔ قابل ذکر ہے کہ رواں برس (دوہزاربائیس) کے دوران مارچ اور اپریل کے مہینے بھی گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ گرم رہے اور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیائی خطے کے دیگر ممالک کو بھی ”ہیٹ ویو“ کا سامنا ہے۔ ”سائنس ڈیلی“ نامی جریدے میں شائع ہونے والی تازہ ترین تحقیق کے مطابق کرہئ ارض پر گرمی کا دورانیہ ہر سال پہلے سے زیادہ شدید رہے گا کیونکہ قدرت کی جانب سے آب و ہوا اور کرہئ ارض کے موسموں میں جو توازن برقرار رکھا گیا تھا‘ وہ وقت کے ساتھ بگڑ چکا ہے اور لمحہئ فکریہ یہ ہے کہ ماحول کے توازن کو تباہ کرنے اور اپنی بقا داؤ پر لگانے کے باوجود بھی اِنسانوں کو ”اپنی غلطی کا اِحساس نہیں“ اور سمجھا یہ جا رہا ہے کہ ترقی یافتہ (سرمایہ دار) ممالک کرہئ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہئ حرارت سے نمٹ لیں گے جبکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر (غریب ممالک) ممالک کے عوام سمجھتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیاں ترقی یافتہ ممالک کا مسئلہ ہیں‘ ماحول کے بارے میں بات کرنا ایک خاص طبقے کا مشغلہ اور فیشن ہے اور اِس سے غریب ممالک کو کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ عالمی سطح پر 1998ء سے 2017ء تک ”ہیٹ ویو“ کی وجہ سے ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار اموات ہوئی ہیں۔ عالمی ادارہئ صحت کے مطابق اِن اموات میں سال 2003ء کے دوران یورپی (ترقی یافتہ) ممالک میں ہوئی 70 ہزار اموات شامل ہیں! پاکستان میں ہر سال ”ہیٹ ویو“ سے اموات ہوتی ہیں‘ جن کے بارے میں سال 2000ء سے 2015 ء تک کے مرتب اعدادوشمار کے مطابق 1200 افراد اموات ہوئی ہیں اور 2015ء کے بعد ہر سال اوسطاً 100 اموات گرمی کی وجہ سے ہوتی ہیں جبکہ گرمی کی یہ لہر کچھ علاقوں (جیسا کہ جیکب آباد) میں اس قدر شدید ہے کہ اُنہیں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک حالیہ رپورٹ میں جانب سے ناقابل رہائش قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے۔ ہیٹ ویو یعنی زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جن کی علامات میں تھکاوٹ‘ جسمانی اعضاء کی ظاہراً سوجن‘ گرمی کے دانے، اعصابی تناؤ اور کھنچاؤ‘ سر درد‘ چڑچڑاپن‘ سستی‘ کمزوری‘ جسم میں پانی کی شدید قلت سے سیریبرو ویسکولر اور تھرمبوجینیسیس بیماریاں لاحق ہونا شامل ہیں۔ ایسے افراد کو مختلف دائمی بیماریوں جیسا کہ شوگر (ذیابیطس) و بلڈپریشر (بلند فشار خون) سے متاثر ہیں
اُن کیلئے گرمی کی اچانک شدید لہر زیادہ خطرے کا باعث ہو سکتی ہے۔ اِسی طرح گرمی کی لہر آبی ذخائر‘ زرعی پیداوار بالخصوص فصلوں‘ سبزی اور باغات کیلئے بھی یکساں نقصان دہ ہے جبکہ گرمی کی وجہ سے بجلی کی طلب بڑھ جاتی ہے اور بجلی کا ترسیلی نظام چونکہ خستہ حال ہے اِس لئے پیداوار بڑھانے کے باوجود بھی بجلی کی فراہمی معطل رہتی ہے۔ کرہئ ارض کا درجہئ حرارت معمول پر لانے کیلئے ایسے تمام ایندھن کا استعمال ترک کرنا ہوگا جن سے کثیف دھواں پیدا ہوتا ہے جیسا کہ کوئلے کا استعمال۔ دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں جنہوں نے اپنے ہاں کوئلے کے استعمال کو ترک کرنا شروع کر دیا ہے جیسا کہ عوامی جمہوریہ چین نے کوئلے کے بجلی گھر مرحلہ وار ختم کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے لیکن کوئلے سے چلنے والے وہی بجلی گھر پاکستان میں نصب کئے جا رہے ہیں اور چند ایک ایسے بجلی گھروں نے تو کام بھی شروع کر دیا ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ کرہئ ارض کے درجہئ حرارت بڑھنے کا عمل جسے عرف عام میں ”گلوبل وارمنگ“ کہا جاتا ہے کی وجہ سے غذائی تحفظ‘ غذائی خودکفالت اور آبی وسائل پر بھی دباؤ ہے۔ترقی یافتہ ممالک نے پیرس معاہدے کے تحت وعدہ کیا تھا وہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی مالی و تکنیکی مدد کریں گے تاکہ یہ اُن ماحول دشمن اسباب کا خاتمہ کر سکے جن کی وجہ سے ”ہیٹ ویو“ پیدا ہوتی ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک نے معاونت اور ٹیکنالوجی منتقلی کا وعدہ پورا نہیں کیا اور پاکستان اِس حالت میں نہیں کہ کوئلے کے بجلی گھر بند کر دے جبکہ اِس کے متبادل بجلی کے پیداواری وسائل دستیاب نہیں ہیں اور یوں نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔ پیرس معاہدے کے تحت تمام دستخط کنندگان کو کاربن کے اخراج میں کمی کرنی ہے
لیکن ترقی یافتہ ممالک اپنی یہ ذمہ داری بھی پوری نہیں کر رہے۔ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (آئی پی سی سی) کی حالیہ (تازہ ترین) رپورٹ کے مطابق اگرچہ ماحولیاتی تنوع کو سمجھنے اور اِس کی درستگی میں بہت دیر ہو چکی ہے لیکن عمل کرنے کا وقت ہاتھ سے نہیں گیا۔ پاکستان نے ”دس ارب درخت“ لگانے جیسی شجرکاری مہم کے ذریعے ”سرسبز سونامی“ متعارف کروائی جس عالمی سطح پر تعریف بھی کی گئی ہے تاہم اِس شجرکاری مہم کو کامیاب بنانے اور مکمل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہر درخت لگانے سے بڑھنے تک توجہ اور حفاظت چاہتا ہے علاوہ ازیں پاکستان کو ”شدید گرمی کے اثرات“ کم کرنے کیلئے شہروں میں شجرکاری مہمات کرنا ہوں گی‘ جہاں کنکریٹ کی عمارتیں کھڑی ہیں اور جنگلات کی کٹائی معمول بن چکی ہے۔ شہری ترقی کا ایک مطلب ”درخت اور سبزہ زار“ ختم کرنا ہے اور اِس کی مثالیں پشاور شہر جیسے کئی بڑے شہری مراکز میں پھیلی ملتی ہیں۔ بنیادی طور پر نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کیلئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور حکومت کو افقی کی بجائے عمودی ہاؤسنگ سوسائٹیوں (کثیرالمنزلہ تعمیرات) کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے جبکہ تعمیراتی مٹیریل کے انتخاب میں بھی دانشمندی سے کام لیتے ہوئے ایسا مواد استعمال کرنا چاہئے جس میں موسمیاتی درجہئ حرارت (شدید گرمی کی لہر) کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہو۔ حکومت ہی کا فرض ہے کہ وہ پائیدار نقل و حرکت (پبلک ٹرانسپورٹ) کا ایسا نظام متعارف کروائے اور اِس میں نجی شعبے کو سرمایہ کاری کے مدعو کرے تاکہ عوامی نقل و حرکت کیلئے استعمال ہونے والی گاڑیوں سے دھویں کا اخراج کم سے کم کیا جاسکے۔ سفر کیلئے انفرادی موٹرگاڑیوں کے استعمال کی بجائے سفر کیلئے پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے اور اِس سلسلے میں ”الیکٹرک اور ہائبرڈ“ گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح کم کرنی چاہئے تاکہ دھویں کا اخراج کم کیا جا سکے۔ سوشل میڈیا کے دور میں اِنٹرنیٹ کا اِستعمال کرتے ہوئے ”شدید گرمی کی لہر (ہیٹ ویو)“ سے ممکنہ بچاؤ“ کے طریقوں بارے ذرائع ابلاغ سے اعلانات کروائے جائیں۔ خشک گرمی کی لہر جان لیوا ہو سکتی ہے جس کیلئے شہری علاقوں میں ”گرمی سے بچاؤ کی پناہ گاہیں“ بنانا بھی ضروری ہیں۔