پندرہ مئی دوہزاربائیس: ضلع ہری پور کی تحصیل ”خان پور“ کے گاؤں منکھیال (المعروف منکیال) سے منسوب جنگل کی آگ دیکھتے ہی دیکھتے پھیل رہی ہے جس پر باوجود کوشش بھی قابو نہیں پایا جا سکا ہے اور آخری اطلاعات آنے تک یہ آگ ہزاروں ایکڑ جنگلات کو راکھ میں تبدیل کر چکی ہے۔ آگ لگنے کی وجہ موسم گرما کی شدت‘ خشک موسم‘ تیز ہوائیں اور ایک ٹک ٹاکر کو بھی قرار دیا جا رہا ہے لیکن منکیال جنگل کو صرف آگ ہی سے نقصان نہیں پہنچا بلکہ اِس سے قبل (نومبر2021ء میں) ’سروے آف پاکستان‘ نے اِسی مشہور جنگل میں تجاوزات اور جنگلات کی کٹائی سے متعلق تحقیقات پر سنگین سوالات اُٹھائے تھے اور کہا تھا کہ مکنیال جنگل میں قریب 15.75 ہیکٹر (38.92ایکڑ) جنگل کی اراضی کمرشل اور رہائشی منصوبوں میں تبدیل کی گئی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ قومی نقصان کو کوئی نقصان ہی نہیں سمجھتا۔ ایک مرتبہ پھر جنگل کی آگ کے ذریعے قومی نقصان ہو رہا ہے۔ اِس مرتبہ کھاریاں‘ بناتھ‘ آریالہ نامی دیہات کے رہنے والے مقامی افراد رضاکارانہ طور پر آگ بجھا رہے ہیں اور انہی لوگوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے یہ خبر بھی جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ہے۔ ”مکھنیال تحفظ موومنٹ“ نامی غیرسرکاری مقامی تنظیم کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے اطلاع دی گئی کہ ”پکشاہی فارسٹ ایریا“ کے گیارہوں اور بارہویں حصے میں آگ بھڑکی جس نے پورے علاقے کو متاثر کیا۔ ذہن نشین کہ جنگل کی آگ کا مطلب صرف ہرے بھرے درختوں کا راکھ میں تبدیل ہونا ہی نہیں ہوتا بلکہ اِس کی وجہ سے سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں پرندے اور جنگلی حیات بھی جل کر مر جاتے ہیں! محکمہئ جنگلات سب ڈویژنل آفیسر مکھنیال کی جانب سے جاری ہونے والے وضاحتی بیان میں کیا گیا کہ جنگل کی آگ مارگلہ کی پہاڑیوں (وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی حدود) سے 13 مئی کے روز شروع ہوئی
اور تیز ہواؤں کے باعث یہ آگ ملحقہ ضلع ہری پور تک جا پہنچی۔ ضلع ہری پور کے 25 ہزار ایکڑ رقبے پر جنگلات ہیں جبکہ ضلع ہری پور میں محکمہئ جنگلات کے کل 50 اہلکار اور چند درجن مقامی رضاکار اُس آگ بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں جو سرکاری اور نجی جنگلات (نیلان بھوٹو اُور پکشاہی) پر بھی حاوی ہوتی چلی گئی اور مجموعی طور پر 10 سے 15 ہیکٹرز (پچیس سے تیس ایکڑز) پر کھڑے پائن کے قدیمی اُور نئے درخت جل چکے ہیں۔جنگل کی آگ دنیا میں کہیں بھی مذاق نہیں سمجھی جاتی لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ’سوشل میڈیا‘ پر لاکھوں فالوورز رکھنے والی ایک ٹک ٹاکر نے اِس موقع کو اپنی مقبولیت بڑھانے کیلئے غنیمت سمجھا اور مارگلہ کی پہاڑیوں سے ہری پور کے جنگلات تک پھیلی آگ کے ساتھ ’15 سکینڈ‘ کی ویڈیو ٹک ٹاک پر جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ”جہاں میں ہوتی ہوں وہاں آگ بھڑک اُٹھتی ہے!“ یہ ایک انتہائی غیرذمہ دارانہ حرکت تھی جس کی ٹک ٹاک (غیرملکی چینی کمپنی کی) انتظامیہ اور پاکستانی و غیرملکی ٹک ٹاک صارفین نے سخت مذمت کی جس کے بعد اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے ویڈیو ہٹا دی کہ ”آگ لگانے میں اُن کا کوئی کردار نہیں تھا اور ایسی ویڈیو بنانا نقصان دہ یا مضر نہیں ہے لیکن شاید وہ نہیں جانتی کہ کسی قدرتی آفت کو آفت نہ سمجھنا اور کسی ممکنہ آفت کے بارے میں علم رکھنے کے باوجود اُس کا مقابلہ کرنے کی پیشگی تیاری نہ رکھنا بھی یکساں مضر اور نقصان کا باعث ہے۔ ٹک ٹاکر کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ (اسلام آباد) کی چیئرپرسن ’رعنا سعید خان ستی‘ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ویڈیو بنانے والی ٹک ٹاکر کے خلاف قانونی کاروائی کا عندیہ دیا اور ویڈیو ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ”پاکستانی لوگ صرف فالوورز بڑھانے کیلئے جنگلات میں آگ لگا رہے ہیں جب کہ آسٹریلیا میں ایسی حرکت کرنے پر عمر قید کی سزا ملتی ہے۔“ جنگل کی آگ کے بارے میں کسی ٹک ٹاکر کے بے حس ہونے پر تعجب کا اظہار کافی نہیں بلکہ اُن سبھی کرداروں کی بھی مذمت ہونی چاہئے جو اِس صورتحال میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں اور یہ خاموش تماشائی چاہے سوشل میڈیا کے ہیں یا حکومتی اہلکار سب کو قومی نقصان پر افسردہ (رنجیدہ) ہونا چاہئے۔کیونکہ جنگلات وہ قومی دولت ہے جس کی حفاظت کے لئے پورے معاشرے کو مل کر کوششیں کرنی چاہئے۔