دیکھا جائے تو چھوٹی سکرین کے ان گنت نیوز چینلز پر بھی کوئی کم ڈرامے نہیں ہوتے،پھر بھی ان چینلز نے اپنی اپنی تفریحی چینلز کی کھڑکیاں بھی کھول رکھی ہیں، جن میں کئی ایک کچھ ریالٹی شوز بھی دیکھے جا سکتے ہیں اور ان چینلز پرکچھ ریالٹی سے کوسوں دور ڈرامے بھی تواتر سے نظر آتے ہیں، ان تمام ڈراموں میں سب سے اہم کردار گلیمر کا ہو تا ہے لگتا ہے جیسے،زرق برق ملبوسات اور نت نئے فیشن کی میراتھن ریس لگی ہوئی ہے، حیرانی ہوتی ہے کہ الگ الگ رائٹرز کے لکھے ہو ئے ڈراموں کی کہانی کم و بیش ایک ہی ہوتی ہے‘ ایک ہی موضوع کے گرد ڈرامہ کا تانا بانا بنا جاتا ہے، لیکن سارے ڈرامے دیکھے بھی جاتے ہیں اور پسند بھی کئے جاتے ہیں، اک زمانہ تھا کہ ایک ہی چینل تھا پی ٹی وی اور وہ ڈراموں کے حوالے سے ایک سنہرا دور تھا‘ شاید ایک وجہ یہ بھی رہی ہو گی کہ تب ادب سے جڑے ہوئے لوگ ہی ڈرامہ لکھتے تھے اس شعبے میں طویل ریاضت کے بعد بھی ڈرامہ کی بانبی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہے کیونکہ یہ ایک سنجیدہ سرگرمی بھی ہے اور اپنے لوگوں کی ذہنی اور تہذیبی تربیت کے حوالے سے ایک ذمہ داری کا بھی کام ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ لکھنے کا عمومی عمل ایک گواہی کی طرح ہوتا ہے‘ اور اس گواہی کی ذمہ داری کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اپنی صلیب کو اٹھا کر معاشرے کی گلی گلی پھرنے کے بوجھ سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے‘اور پھر اگر لکھنے کا یہ عمل تخلیقی ادب کی اس صنف میں ہو جسے ڈرامہ کہا جاتا ہے تو یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
کیونکہ ادب کے بارے میں عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ ”ادب سب کیلئے نہیں ہوتا ٗ ٗاور کتاب پڑھنے والوں کی تعدادکتنی بھی زیادہ کیوں نہ ہوجائے لیکن ڈرامہ دیکھنے والے لوگوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ڈرامہ دیکھنے کی چیز ہے جس کے لئے پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس یونانی لفظ ڈرامے کا مطلب ہے کچھ کرنا یا کچھ کر کے دکھانا جس کی وضاحت امتیاز علی تاج نے یوں کی ہے کہ جو کہانی اس طرح لکھی جائے کہ فنکاروں کی مدد سے سٹیج پر قصے کی طرح پیش کی جا سکے اس ڈرامہ کہتے ہیں‘ اور یہ وضاحت یونانی ڈرامے کی ابتدائی شکل و صورت کے بہت قریب ہے‘ ڈرامے کی ابتداء یونان سے ہوئی ہو یا برصغیر میں سنسکرت ناٹک سے، اب بھی ساری دنیا میں ڈرامہ سٹیج اور فنکاروں کے بغیر نامکمل ہی تصور کیا جاتا ہے‘ حالانکہ دنیا کی چھوٹی بڑی ہر زبان میں کتابی ڈراموں کا بھی ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے، اور پھر ایک وقت تک ریڈیائی ڈرامے بھی لوگوں کی تشنگی بجھاتے رہے ہیں۔ لیکن ان ذرائع کے باوجود اس بات میں دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ آج کسی تخلیق کار سے پوچھا جائے یا کسی عام آدمی ہی سے پوچھا جائے کہ ڈرامہ کیا ہوتا ہے تو اس کا جواب ٹیلی ویژن ڈرامے کے حوالے سے ہی ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹی وی کے میڈیم نے ڈرامے کی صنف کو اپنے ناظرین کے لئے ایک ضرروت بنا دیا ہے۔ شروع شروع میں اس قسم کی کئی کچی پکی آوازیں بھی سننے میں آئیں کہ ٹی وی ڈرامہ ایک تخلیقی ادب نہیں ہے لیکن یہ آوازیں ٹی وی ڈرامے کی مقبولیت کے سیلاب کے آگے بند نہ باندھ سکیں‘ اصل میں مسئلہ یہ تھا کہ ادب کی دنیا کے بڑے بڑے نام ابھی اس طرف نہیں آئے تھے اور اس کی وجہ ٹی وی میڈیم کی کچھ تکنیکی ضروریات تھیں جن سے کچھ لکھاری ناآشنا بھی تھے، اور سمجھوتہ بھی نہیں کرنا چاہتے تھے،مگر جن کے بغیر لکھا ہوا ڈرامہ ٹی وی سکرین پر نہیں دکھایا جا سکتا تھا‘ ٹی وی ڈرامہ بہرحال تخلیقی کام کے ساتھ ساتھ ایک الگ سے ہنر تھا جو آتے آتے ہی آتا ہے‘ اس کیلئے کبھی کبھی غیر ادیب اور غیر شاعر لوگ بھی اس ہنر کی معمولی سی جان کاری سے بھی ڈرامہ نگار بن جاتے ہیں‘ لیکن ان کے ڈرامے اتنے غیر منطقی اور فلمی انداز کے حامل ہوتے ہیں کہ ڈرامہ ایک غیر سنجیدہ سرگرمی بن جاتا ہے‘ تبھی اس سوال کا شور زیادہ زور پکڑ جاتا کہ ہم ٹی وی ڈرامہ کو تخلیقی ادب میں شمار کر سکتے ہیں یا نہیں‘ اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ جو لفظ تخلیقی کرب کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے وہی لفظ ادب کا حصہ بنتا ہے‘ اور ڈرامے کے پیش کرنے والے اگرپوری ذمہ داری کے ساتھ لکھنے والوں کی سوچ، فکر اور تخلیقی کرب کو اپنے لئے ایک واردات بناتے ہوئے ڈرامہ پیش کریں تو اس طرح ان کی پیشکش ابھی ایک تخلیقی کام بن جائیگا‘ اور اسکے بعد ادب اور ٹی وی ڈراموں کے حوالے سے کوئی سوال انہیں تنگ نہیں کرے گا‘لیکن کبھی کبھی ڈرامے کے پس منظر میں پیش کرنے والے کیلئے یہ ریاضت محض ایک علامت بن جاتی ہے۔ تب یا تو کسی مری ہوئی کہانی میں سانس ڈالنے کی ناکام کوشش، ڈرامے کو بچوں کا ایک کھیل بنا دیتی ہے اور یا پھر ایک اچھی خاصی شاہکار کہانی کو لایعنیت کی صلیب پر چڑھا کراپنی بے ہنری کا ثبوت دیا جاتا ہے‘ایک اور بات بھی ہے کہ ٹی وی ڈرامے کو ماضی میں جس چیز نے نقصان پہنچایا وہ یہ سوچ تھی کہ کہانی اور مقالمے کی بجائے کیمرہ ورک کوزیادہ ترجیح دی جاتی رہی‘اور کسی مغربی ڈائریکٹر کی ایک مشہور بات کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا کہ ایک اچھی فلم (ڈرامہ) کیلئے صرف تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے پہلی سکرپٹ دوسری سکرپٹ تیسری سکرپٹ‘فلمی دنیا میں ذہن پر چہرے کو فوقیت دے دی گئی اورٹی وی پر مکالمہ، منظرنامے کی قربان گاہ پر چڑھ گیا‘ ان دنوں چھوٹی سکرین اور سوشل میڈیا کی حکمرانی کا راج ہے اور ڈرامہ اور فلم کے حوالے سے دنیا بھر کا بہت عمدہ کام ہم سے محض ایک کلک کی دوری پر ہے جس کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالنا آسان ہو جاتا ہے کہ ڈرامہ کی پروڈکشن کے حوالے سے سارے تکنیکی کاموں کو کہانی اور مکالمے کے پیچھے پیچھے چلنا پڑے گا‘ بہت بگاڑ کے باوجود آج بھی ڈرامہ کے پیشکار مختلف چینلز پر پروڈکشن کے نقطہ نظر سے نسبتاََ کمزور ڈراموں میں اگرکہانی اور مکالمے کو اہمیت اور اولیت دیں تو اپنے لوگوں کے روّیوں کی تہذیب کرپائیں گے اور پڑھنے والوں کو ایک غیر محسوس طریقے سے ایک ذہنی کیفیت سے دوسری ذہنی کیفیت تک پہنچا کر اور شائستگی سے ہمکنار کرکے چاروں اور پھیلی بے چینی اور بے یقینی میں کمی لانے میں اپنا کردار ادا کر پائیں گے ا ور تب ٹی وی ڈرامہ بھی بصری ادب کے اونچے سنگھاسن پر جگہ پائے گا‘ ورنہ پھرڈرامہ کی کہانی کے حوالے سے مجھے اپنی خود کلامی میں اپنا ہی شعر شامل کرنا پڑے گا۔
ہر نئے موڑ پہ ہو جاتا ہوں ریزہ ریزہ
کیسا کردار دیا تو نے کہانی میں مجھے