سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے آئین کی دفعہ تریسٹھ اے کی تشریح کے حوالے سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے بھجوائے ریفرنس کو تین دو کی اکثریت کیساتھ نمٹاتے ہوئے اپنی رائے میں قرار دیا ہے کہ سیاسی پارٹیوں سے انحراف ”سیاست کیلئے سرطان“ ہے‘ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر ووٹ دینے والے رکن پارلیمان کا ووٹ شمار نہیں ہو گا تاہم اس کی نااہلی سے متعلق قانون سازی کرنا پارلیمان کا اختیار ہے۔ عدالت عظمیٰ کے بینچ کے دو فاضل ارکان جسٹس جمال خاں مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم نے اکثریتی فیصلہ سے اختلاف کیا اور اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ آئین کی مذکورہ دفعہ جامع اُور مکمل ضابطہ ہے جس میں پارلیمنٹ کے منحرف رکن کے بارے میں صراحت کے ساتھ واضح کر دیا گیا ہے کہ اگر الیکشن کمشن پارٹی سربراہ کی طرف سے بھیجے گئے ڈیکلریشن کو کنفرم کر دے تو متعلقہ رکن ایوان کا رکن نہیں رہتا اور اس کی نشست خالی ہو جاتی ہے۔ اختلافی نوٹ لکھنے والے فاضل ججوں نے صدارتی ریفرنس مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ آئین کی مذکورہ دفعہ کی مزید تشریح ان کی نظر میں آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہو گی جس سے آئین کی دوسری شقیں متاثر ہوں گی جبکہ آئین کو تحریر کرنا عدالت کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ اگر پارلیمنٹ مناسب سمجھے تو منحرف ارکان پر مزید پابندیاں عائد کر سکتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ٹکٹوں پر منتخب ہونے والے ارکان پارلیمنٹ کو کوئی مؤثر قانون نہ ہونے کے باعث وفاداریاں تبدیل کرنے سے روکنا متعلقہ سیاسی جماعتوں کے لئے ممکن نہیں‘ اسلئے اپنے مفادات کے تحت وفاداریاں تبدیل کرنے والے ارکان نے خرید و فروخت کی منڈیاں لگا کر پارٹی ٹکٹوں کو عملاً بے
وقعت بنا دیا اور اس لوٹا گردی میں چھانگا مانگا اور بھوربن میں ہونے والی ہارس ٹریڈنگ نے منتخب ایوانوں‘ حکومتوں اور جمہوریت کا تماشا بنا دیا۔ اس فضا میں یہ تاثر پروان چڑھتا نظر آیا کہ جائز‘ ناجائز ذرائع سے دھن دولت اکٹھی کرنے والا کوئی بھی شخص پوری پارلیمنٹ کو خرید کر اپنی من مرضی کی حکومت تشکیل دے سکتا ہے۔ اسی تناظر میں ہارس ٹریڈنگ کو جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کے ٹیکے سے تعبیر کیا جاتا رہا اور اس حوالے سے تلخ تجربات سے گزرنے کے بعد سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کو ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لئے سخت اور مؤثر قانون وضع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ سیاسی قیادتوں کے اسی اتفاق رائے کی بنیاد پر دوہزارآٹھ کی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن نے باہم مل کر اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کرائی جس کے تحت آئین کی مذکورہ دفعہ میں ’شق اے‘ کا اضافہ کر کے فلور کراسنگ کرنے والے کسی رکن اسمبلی کی رکنیت ختم کرانے کا اختیار متعلقہ پارٹی ہیڈ کو دیا گیا۔ اس آرٹیکل میں اس امر کی مکمل وضاحت کر دی گئی کہ کوئی رکن اپنی پارٹی سے الگ ہو کر کسی دوسری پارلیمانی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لے یا ہاؤس میں وزیر اعظم‘ وزیر اعلیٰ کے انتخاب یا عدم اعتماد اور اعتماد کی قرارداد پر اور فنانس بل پر اپنی پارٹی کے فیصلہ کے برعکس ووٹ دے یا اس روز اجلاس میں موجود ہو کر ووٹ کا حق استعمال کرنے سے انکار کرے تو متعلقہ رکن یا ارکان کیخلاف پارٹی سربراہ اسمبلی کے پریذائیڈنگ افسر اور چیف الیکشن کمشنر کو ڈیکلریشن بھجوا کر متعلقہ رکن کی نشست ختم کرنے کا کہے گا جس کے لئے اسے ڈیکلریشن بھجوانے سے پہلے متعلقہ رکن کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرنا ہو گا جبکہ پارٹی ہیڈ کا ڈیکلریشن موصول ہونے کے بعد متعینہ ضابطہ کار کے مطابق الیکشن کمشن متعلقہ رکن کی نشست خالی قرار دے گا۔ اس طرح مذکورہ آئینی دفعہ میں یہ اصول وضع کر دیا گیا کہ متعلقہ معاملات میں ہاؤس کے اندر پارٹی کے فیصلہ کی خلاف ورزی کرنیوالے کسی رکن یا ارکان کی رکنیت برقرار رکھنا یا ختم کرانا پارٹی سربراہ کی صوابدید ہو گا جبکہ اس معاملہ میں دفعہ تریسٹھ اے کی عملداری میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہے کہ کوئی رکن پارلیمنٹ اسی وقت ڈی فیکشن کی زد میں آئے گا جب وہ پارٹی کے فیصلہ کے خلاف ووٹ دے گا یا فیصلہ کے حق میں ووٹ دینے سے انکار کرے گا‘ سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلہ کے تحت پارٹی کے فیصلہ سے انحراف کو جمہوریت اور متعلقہ پارٹی کے جسم پر چمٹے کینسر سے تعبیر کرتے ہوئے درحقیقت سیاسی جماعتوں کو ہی اس کینسر سے مستقل نجات حاصل کرنے کا راستہ دکھایا ہے‘ اس طرح اب گیند پارلیمانی جمہوری نظام اور اس سے وابستہ سیاسی پارٹیوں کی کورٹ میں ہے کہ وہ اب ہارس ٹریڈنگ سے مستقل خلاصی پانے کیلئے کیا حکمت عملی طے کرتی ہیں‘ موجودہ پارلیمنٹ میں تو اس حوالے سے آئین میں ترمیم کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ آئین میں ترمیم دو تہائی اکثریت کیساتھ ہی ممکن ہوتی ہے‘ سیاسی اختلافات و مفادات میں ایک دوسرے کی راہ میں بچھائے گئے کانٹے سیاسی قیادتوں کو بہرصورت خود ہی نکالنے ہیں۔ انہیں یہ روش اب ختم کرنی چاہئے کہ جو عدالتی فیصلہ ان کے حق میں ہو وہ قابل قبول ہو گا اور جو ان کے حق میں نہ ہو‘ اس کی بنیاد پر اداروں پر چڑھائی کر دی جائے‘ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر: عامر شہیر ایڈوکیٹ۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)