کتاب کہانی: بین الاقوامی تعلقات

عالمی سفارتکاری میں 37 سالہ تجربے کے حامل ’اعزاز اے چوہدری‘ انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ نامی ادارے کے سربراہ (ڈائریکٹر جنرل) ہیں جو قومی اور بین الاقوامی امور سے متعلق پالیسی سازوں اور ماہرین کے لئے تحقیقی مقالات اور کتابیں شائع کرتا ہے لیکن اعزاز چوہدری کے تعلیمی اور تحقیقی تجربے کا نچوڑ تصنیف (Diplomatic Footprints) کی صورت میں سامنے آیا ہے‘ جو کئی دہائیوں پر محیط ان کے تجربے اور مشاہدات کا مجموعہ بھی ہے۔ اعزاز چوہدری نے ٹفٹس یونیورسٹی‘ میساچوسٹس (امریکہ) سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹر ز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اُور آپ اقوام متحدہ میں پاکستان کے نائب نمائندے جبکہ ہالینڈ میں سفیر اور وزارت ِخارجہ میں بطور ترجمان خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ کی آخری سفارتی ذمہ داری امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے تھی۔بین الاقوامی تعلقات عام طور پر ”سرمئی رنگوں“ میں پائے جاتے ہیں جو بعض اوقات گہرے اور زیادہ روشن ہوتے ہیں اُور ان کا انحصار متعلقہ قومی مفادات کے تفریق یا ہم آہنگی پر ہوتا ہے‘ حالات یہ ہیں کہ اگرچہ امریکہ جنوبی ایشیا میں پاکستان کو اپنا اہم اتحادی نہیں سمجھتا لیکن وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان ایک بڑا اور وسائل سے مالا مال ملک ہے اور اسے ’سزا‘ نہیں دی جا سکتی‘ جب تک کہ یہ اپنے آپ ہار ماننے کا انتخاب نہ کرے‘ اعزاز چوہدری لکھتے ہیں کہ پاکستان کے پاس آزاد خارجہ پالیسی نہیں‘یہ دلیل دی جاتی ہے کہ فوج اور انٹیلی جنس خارجہ پالیسی چلاتی ہے اُور وزارت خارجہ صرف ایک شو پیس ہے‘ جس کی کارکردگی بریفنگ نوٹس تیار کرنے‘ پروٹوکول کے ذریعے گلائڈنگ اور سفارتی ڈی مارچز تک محدود ہے‘ اس تنقید کا ایک متعلقہ پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی غیر ملکی طاقتوں سے بہت زیادہ متاثر ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ اس دو طرفہ مقالہ کے جواز کو چیلنج کیا ہے۔

مجھے اس کے بارے میں ابتدائی طور پر معلوم ہوا کہ امریکہ میں خارجہ پالیسی سازی کے بارے میں معلومات تمام متعلقہ اداکاروں کی طرف سے آتی ہیں‘ دفتر خارجہ اپنی طرف سے معلومات فراہم کرتا ہے لیکن امریکی کانگریس‘ پینٹاگون‘ سی آئی اے اور دیگر متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے آنے والی رائے کو بھی اہم سمجھتے ہوئے مدنظر رکھا جاتا ہے‘ آخر میں‘ ایک بار فیصلے ہونے کے بعد‘ اتفاق رائے پر مبنی یہ ماڈل عمل درآمد کے زیادہ منظم عمل کی اجازت دیتا ہے‘ ویسے بھی یہی عمل زیادہ تر ممالک کیلئے درست ہے۔ بیرونی قوتوں پر تنقید کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ ”ایسا اِس وجہ سے ہے کیونکہ ہم نے خود اُنہیں پاکستان میں مداخلت کی اجازت دے رکھی ہے۔“ کتاب میں کئی دلائل بھی پیش کئے گئے ہیں‘ایک اور مثال کا حوالہ دیتے ہوئے اُنہوں نے لکھا ہے کہ  سال دوہزارپندرہ میں امریکہ پاکستان کے وزیر اعظم کے واشنگٹن دورے سے قبل ہمارے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کرنا چاہتا تھا‘ امریکی حکام کے مذاکرات اور دباؤ کے ہتھکنڈوں کے باوجود ہماری حکومت اپنے مؤقف پر ڈٹی رہی اور قومی مفاد پر سمجھوتہ نہیں کیا اس کے باوجود امریکی حکومت نے پاکستان کے مؤقف اُور خیالات کا احترام کیا‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے فیصلوں پر ڈٹ کر کھڑی ہوتی ہے تو پھر اُس کے عزائم اُور ارادوں کی راہ میں کوئی حائل نہیں ہوتا‘ اگر کوئی قوم متحد ہے اور اس کی قیادت کو عوام کی حمایت حاصل ہے تو ایسی صورت میں غیرملکی طاقتوں کے استحصال یا مداخلت کا امکان کم ہو جاتا ہے لیکن اس کے برعکس اگر کوئی ملک سیاسی طور پر منقسم‘ معاشی طور پر کمزور اور سماجی طور پر افراتفری کا شکار ہو تو ”یقینا غیر ملکی طاقتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے‘ مسلم دنیا کیساتھ پاکستان کے تعلقات ”خارجہ پالیسی کے چیلنجوں اور مواقع کا مجموعہ“ ہیں‘مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کی ہوائیں چلنے کیساتھ ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال بھی دوبارہ سر اُٹھا رہا ہے‘ مذکورہ کتاب میں اِن سبھی موضوعات پر بحث ملتی ہے اُور ہر موضوع کے مختلف پہلو بھی اُجاگر کئے جاتے ہیں تاکہ سفارتکاری کی سطح پر پاکستان کی ساکھ بہتر و معیاری بنانے کی کوششیں بھرپور انداز سے کی جا سکیں‘ سفارتکاری میں دلچسپی رکھنے والے محقق‘ معلم اُور طالب علموں  کیلئے بھی پہلی فرصت میں ”ڈپلومیٹک فٹ پرنٹس“ نامی کتاب کا مطالعہ مفید رہے گا۔