پشاور کہانی: شاہ ولی قتال

جنوب مشرق ایشیا کے قدیم ترین اور زندہ تاریخی شہر پشاور دستکاروں اور ہنرمندوں کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا ہے اور ایسا ہی ایک قابل ذکر کاروباری مرکز ”شاہ ولی قتال“ کے نام سے بھی مشہور ہے جس کا ذکر پشاور کے ابتدائی تذکروں میں ملتا ہے اور یہ صدیوں سے آباد ہے۔ ’شاہ ولی قتال‘ قصہ خوانی بازار کی پشت (شمالاً) واقع ہے جس کے داخلی و خارجی راستے بازار مسگراں‘ ڈھکی اور قصہ خوانی بازار سے متصل ہیں‘ زیادہ پرانی بات نہیں کہ پشاور کے مصروف ترین کاروباری مرکز (قصہ خوانی بازار) کے عقب میں اِس راہداری میں گنتی کی چند دکانیں ہوا کرتی تھیں لیکن گزشتہ تیس برس میں ’شاہ ولی قتال‘ کا نقشہ مکمل تبدیل ہو چکا ہے اور اب یہ رہائشی نہیں بلکہ مصروف و معروف تجارتی مرکز ہے۔ یہاں کثیرالمنزلہ عمارتیں اور تھوک و پرچون دھاتی ظروف فروشی کے پُرہجوم مراکز ہیں جہاں سے پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کو سازوسامان فراہم کیا جاتا ہے۔
 پہلی بات تو یہ ہے کہ اندرون شہر پشاور کے رہائشی و تجارتی علاقوں میں تمیز نہیں رہی جیسا کہ مسلم مینا بازار سے چوک ناصر خان تک کے بعد حالیہ چند برسوں میں رونما ہونے والی ’شاہ ولی قتال ایک مثال ہے جہاں پشاور کے روایتی فن تعمیر اور بودوباش کی جگہ کاروباری سرگرمیوں نے لے لی ہے‘پورا علاقہ تجارتی مراکز میں تبدیل ہو گیا ہے‘شاہ ولی قتال بازار نے وقت کے ساتھ کئی روپ بدلے‘ ڈیڑھ سو سال قبل اِس بازار میں ظروف ساز منتقل ہوئے تاہم یہ فن بھی وقت کے ساتھ ختم ہوتا چلا گیا کیونکہ پشاور کے پیشہ ور اور پشاور کے پیشے نئی نسل کو منتقل ہونے کا سلسلہ نہیں رہا جس کی بنیادی وجہ حکومت کی سرپرستی کا فقدان ہے۔
دوسری اہم بات وقت کیساتھ اہل پشاور کے رہن سہن اور عادات میں تبدیلی ہے اور اب پشاور میں ہاتھ سے بنے‘ رنگ برنگے نقش و نگار سے مزین مٹی کے برتنوں کا استعمال نہ تو مہمان نوازی کا حصہ رہی ہے اور نہ ہی روزمرہ رکھ رکھاؤ پر مبنی ترجیحات کا حصہ ہے‘پشاور کے معروف محقق اور تاریخ داں قاری جاوید اقبال مرحوم نے اپنی تصنیف ”ثقافت ِسرحد تاریخ کے آئینے میں“ شاہ ولی قتال کے بارے میں لکھا ہے کہ ”اِس بازار کے ایک حصے میں ”آغا سیّد میر جعفر (رحمۃ اللہ علیہ)“ کا مزار ہے جو 1847ء میں لکھنو سے پشاور آئے اور رہائش کیلئے اِس مقام کا انتخاب کیا جہاں سے اُس وقت نہر کی ایک شاخ گزرتی تھی اور اِسی کے کنارے آپؒ نے رشدوہدایت کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور شاید آپؒ کی وصیت کے مطابق یہیں دفن بھی کر دیا گیا جبکہ قبل ازیں اِس مقام پر آل سادات سے تعلق رکھنے والے اکابرین کا چھوٹا سا قبرستان موجود تھا‘ اِس ’گنج ِشہیداں‘ کی وجہ سے اِس مقام کو ”قتال“ کہا جاتا تھا۔
 غالباً سن ایک ہزار عیسوی میں بادشاہ یمین الدولہ ابوالقاسم محمود بن سبکتگین المعروف محمود غزنوی کا پشاور سے گزر ہوا تو اُن کے ہمراہ حضرت شاہ ولی رحمۃ اللہ علیل ہوئے اور انہیں اِسی قتال گاہ جو اُس وقت سرسبز و شاداب باغ ہوا کرتی تھی میں دفن کردیا گیا‘ بت شکن کے لقب سے معروف حضرت شاہ ولی رحمۃ اللہ علیہ کے نام نامی اسم گرامی سے یہ مقام ’شاہ ولی قتال‘ منسوب و مشہور ہوگیا۔ظروف سازی کے علاؤہ ”شاہ ولی قتال“ کی ایک وجہ شہرت یہاں سے بھارتی فلمی اداکار ”شاہ رخ خان ولد میر تاج محمد خان“ کا آبائی تعلق اور اِن کے قریبی رشتہ داروں کی قیام گاہیں ہیں‘ جو یہاں سے اگرچہ نقل مکانی کر چکے ہیں لیکن اُن کی یادگاریں باقی اور پشاور کی سیر کیلئے آنے والوں کیلئے خاص کشش کا باعث ہیں‘قابل ذکر ہے کہ بھارت کی فلمی صنعت پر راج کرنیوالے دیگر فنکاروں میں یوسف خان المعروف دلیپ کمار اور راج کپور خاندان کی ’جنم بھومی‘ بھی پشاور ہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ قصہ خوانی بازار کے اردگرد پھیلے اِن تاریخی و ثقافتی ورثوں کو دیکھے بغیر پشاور کی سیاحت مکمل نہیں ہو سکتی۔
قیام ِپاکستان کے بعد مرتب ہونے والی ”تاریخ ِپشاور“ میں ’شاہ ولی قتال‘ کا حوالہ ”ظروف سازی“ رہا ہے تاہم یہ کسب کب سے شروع ہوا‘ اِس بارے میں مختلف دعوے کئے جاتے ہیں۔ ’پشاور پوٹری (Peshawar Pottery)‘ کے نام سے یہاں ظروف سازی کا معروف مرکز سو سال سے زائد قائم رہا تاہم اِسے آباد رکھنے والے ’سیماب خاندان‘ کے آباؤاجداد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے یہ ہنر ایران سے آئے ہوئے دستکاروں سے سیکھا تھا اور اِس سلسلے میں شاہ ولی قتال کے خلیفہ محمود کا تذکرہ تاریخی کتب میں اِس حوالے سے محفوظ ہے کہ انہوں نے 1860ء میں ایران سے آئے ہوئے ہنرمندوں سے ظروف سازی سیکھی اور پھر اِس ہنر کو اُس کمال تک پہنچایا کہ پشاور میں بنے ہوئے برتن اور اِن پر نقش و نگار ایران میں بھی مقبول ہوئے‘ جہاں سے یہ فن پشاور منتقل ہوا تھا۔ مقام افسوس و تفکر ہے کہ پشاوری ظروف سازی جس پر ایرانی ثقافت کا غلبہ تھا لیکن پشاوری امتزاج سے ایک نیا فن معرض وجود میں آیا جو ایک عرصے تک پشاور کا تعارف اور حوالہ رہا لیکن اِسے زندہ و جاری رکھنے کیلئے قومی و صوبائی فیصلہ سازوں نے خاطرخواہ توجہ نہیں دی۔
 ”شاہ ولی قتال“ کے برتن اِس قدر مشہور ہوا کرتے تھے کہ پشاور آنے والے غیرملکی سرکاری وفود کو یہاں کی سیر کروائی جاتی اور اُنہیں یہ برتن بطور تحفہ پیش کئے جاتے جبکہ سیاح اِنہیں بطور سوغات خریدنا نہیں بھولتے تھے۔ اُمید ہے کہ امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد جبکہ پشاور میں غیرملکی سیاحوں کی ٹولیاں پھر سے دکھائی دینے لگی ہیں تو سیاحوں کو خدمات و رہنمائی فراہم کرنے والے حکومتی و نجی ادارے ”شاہ ولی قتال“ کی بحالی پر خاطرخواہ توجہ دیں گے‘ ہنرمندوں کے شہر …… پشاور کو ”پیشہ ور“ بھی کہا جاتا ہے لیکن ”کسب کمال کن کہ عزیزے جہاں شوی“ کی یہ عملی مثالیں اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں۔ پشاور کی ظروف سازی معیار کے لحاظ سے یورپی ممالک بالخصوص برطانیہ کے ہم پلہ ہوا کرتی تھی۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ تاریخ پشاور کے اِس ”گمشدہ باب“ کو پھر سے تلاش اور اُجاگر کیا جائے۔