بلدیاتی نظام کی فعالیت

مقامی حکومتوں یا بدلیاتی نظام کو بنیادی جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ یہاں سے سیاست میں قدم رکھنے والی اکثر شخصیات آگے جاکر قومی سیاست میں اہم کردار ادا کرتی لگتے ہیں‘تاہم ضروری ہے کہ بلدیاتی نظام کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے دیکھا جائے اور اسے فعال بنا کر عوام کے مسائل کو مقامی سطح پر حل کرنے کے اس نظام سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جائے‘صوبہ خیبر پختونخوا نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں دوسرے صوبوں پر سبقت حاصل کرکے بہترین مثال قائم کی ہے اور یہاں پر بلدیاتی ادارے بھی کافی فعال کردار ادا کرنے کیلئے مشہور ہیں۔تاہم حال ہی میں خیبر پختونخو اکے منتخب ویلیج کونسل چیرمینوں کی تنظیم نے شکوہ کیا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے قیام کو چھ ماہ کا عرصہ گذرنے کے باوجود منتخب نمائندوں کے دفاتر کا مسئلہ حل ہوسکا نہ ہی ان کیلئے قواعد و ضوابط مرتب کئے جاسکے جس کی وجہ سے عوام کے مسائل مقامی سطح پر حل ہونے کا عمل رکا ہوا ہے۔
 صوبے 17اضلاع میں 19دسمبر 2021کو بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا تھا۔جبکہ دوسرے مرحلے میں صوبے کے اٹھارہ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات 31 مارچ کو ہوئے تھے‘ حقیقت یہ ہے کہ عوام نے جن توقعات کے ساتھ امیدواروں کو ووٹ دیا تھا، مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے عوام کا اعتمادمنتخب نمائندوں اور بلدیاتی نظام پر سے ختم ہو نے کا خدشہ ہے۔ ویلیج کونسلیں جمہوری نظام میں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں، رولز آف بزنس نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک غیر فعال ہیں دوسری طرف بلدیاتی نظام میں آئے روز تبدیلیوں کی وجہ سے عام لوگ اور منتخب نمائندے بھی کنفیوژن کا شکار ہیں‘ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے وفاق سے متعدد وزارتیں صوبوں کو منتقل کی گئی تھیں‘تاہم ان وزارتوں کے اثاثے اب تک وفاق کے پاس ہیں۔ قومی مالیاتی کمیشن کے تحت وفاق قومی وسائل کا 49فیصد صوبوں کو منتقل کرنے کا پابند ہے تاہم آئین میں متفقہ ترمیم کے باوجود وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔
 آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو صوبائی مالیاتی کمیشن کے ذریعے وسائل مقامی حکومتوں کو منتقل کرنے تھے لیکن بلدیاتی ادارے بدستورصوبائی مالیاتی کمیشن کے تحت وسائل میں اپنا حصہ حاصل کرنے سے محروم ہیں جس کے نتیجے میں مقامی سطح پر ترقیاتی منصوبے ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں‘منتخب بلدیاتی ارکان کو صرف اجلاسوں میں شرکت کیلئے ٹی اے، ڈی اے ملتا ہے جو کافی نہیں‘ مستحکم جمہوری ملکوں میں بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے‘وہاں ریاستی اور مرکزی اسمبلیوں کے ارکان سے زیادہ اختیارات اور وسائل مقامی حکومتوں کے پاس ہوتے ہیں کیونکہ ان اداروں کا نچلی سطح پر عوام کے ساتھ قریبی رابطہ اور عوامی مسائل کا ادراک ہوتا ہے‘مقامی سطح پر تعلیم اور صحت کی ضروریات پوری کرنا، سڑکوں، پلوں، نہروں، پشتوں کی تعمیر سے لے کر جنازہ گاہوں۔
 قبرستانوں، پبلک پارکس کی تعمیر،توسیع اور دیکھ بھال کے علاوہ کوڑا کرکٹ کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانا، سڑکوں کی صفائی، گلی محلوں کی فرش بندی، نالیوں کی تعمیر جیسے کام بلدیاتی ادارے ہی انجام دیتے ہیں۔برتھ اور ڈیتھ سرٹیفیکیٹ کا اجراء اور لوگوں کے شناختی کاغذات کی تصدیق بھی بلدیاتی نمائندوں کی ذمہ داری ہے‘ مقامی حکومتوں کو وسائل مہیا کرنااور اختیارات کی منتقلی جس قدر جلد ہو اسی قدر اس نظام پر عوام کا اعتماد بڑھے گاجبکہ دوسری طرف تاخیر کا نقصان براہ راست عوام کو ہوتا ہے۔خیبر پختونخوا حکومت نے سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کروا کر دیگر صوبوں پر سبقت حاصل کی ہے۔