معدنی ترقی

قدرت نے خیبر پختونخوا کو قدرتی وسائل سے انتہائی فیاضی سے نواز ہے۔ہمارے پاس اتنے آبی ذخائر ہیں کہ ہم انہیں بروئے کار لاکر پچاس ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کرسکتے ہیں جس سے نہ صرف ملک کی آئندہ پچاس سال تک کی توانائی کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کو روزگار بھی مل سکتا ہے۔ صوبے میں نئی صنعتیں لگ سکتی ہیں۔لاکھوں ایکڑ بنجر زمین سیراب ہوسکتی ہے جس کی بدولت ہم غذائی پیداوار میں خود کفیل ہوسکتے ہیں۔ اگر چہ اس  وقت حکومت صوبے کے قدرتی وسائل سے استفادہ کرنے کی بھر پور کوشش کررہی ہے اور اس حوالے سے اہم اقدامات بھی کئے گئے ہیں تاہم ان کوششوں میں مزید تیزی لانے کی ضرورت اور بہتر سے بہتر کی تلاش ہمیشہ رہے گی۔
 ہمارے پاس جنگلات کا خزانہ ہے جس میں اضافے کیلئے بلین ٹری سونامی جیسے منصوبے بھی لائے گئے مگر عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنے کی ضرورت اب بھی ہے کیونکہ مناسب دیکھ بھال اور حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی بے دریغ کٹائی جاری ہے جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہورہی ہیں صوبے کے مختلف علاقوں میں گذشتہ ایک عشرے سے گلیشیئر پھٹنے اورتباہ کن سیلاب کے باعث کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ ہمارے صوبے میں سینکڑوں کی تعداد میں دلکش سیاحتی مقامات ہیں جہاں تک رسائی کیلئے سڑکوں کی اہمیت سے انکار  نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے صوبے کے پہاڑوں میں سونے، زمرد، جپسم، اینٹی منی، شیلائٹ، ماربل اور دیگر قیمتی پتھروں کے خزانے بھرے ہوئے ہیں مگر معدنیات کی دریافت اور اس کے استفادے کے عمل کو جدید خطوط پر استوارکئے بغیر ان قیمتی خزانوں سے مکمل طور پراستفادہ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ہم صرف ایک ضلع چترال کی مثال لے لیں تو وہاں کے آبی ذخائر، معدنیات،سیاحتی مقامات کو ترقی دے کر ہم نہ صرف اپنے صوبے بلکہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں۔ 
چترال کے علاقہ گرم چشمہ میں انتہائی قیمتی دھات شیلائیٹ کا پورا پہاڑ کھڑا ہے۔ کچھ عرصہ قبل وہاں شیلائیٹ منرل ایکسپلوریشن پراجیکٹ شروع کیاگیا۔جس کمپنی نے اس کے لیز کا ٹھیکہ لیاتھا۔ اس کمپنی کے نمائندوں نے پہاڑ سے گرے ایک پتھر کو اٹھاکر اس کا تجزیہ کیا تو پتہ چلا کہ عمومی طور پر ایک اچھے کان میں پتھر کے ساتھ 40سے 45فیصد تک شیلائیٹ موجود ہوتا ہے۔گرم چشمہ میں 65فیصد شیلائیٹ کا کھوج مل گیا۔ دوسالوں میں لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بعد پراجیکٹ ختم کردیاگیا کاروباری حلقے اور ایسوسی ایشن کو شکایت ہے کہ بلاکس پالیسی میں مقامی سرمایہ کاروں کی شرکت کو صوبائی حکومت نے یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے تاہم لیز ہولڈرز مروجہ قواعد و ضوابط اور حکومتی ہدایات کو اکثر نظر انداز کرتے ہیں، دوسری طرف ملک کے آئین اور قانون میں بھی یہ واضح طور درج ہے کہ جس علاقے کا پانی، بجلی، گیس، تیل، جنگلات اور معدنی ذخائر سے استفادہ کیاجائے گا۔ اس میں مقامی آبادی کو رائلٹی دی جائے گی غیر ہنر مند افرادی قوت مقامی آبادی سے لی جائے گی تاکہ جن علاقوں میں یہ معدنیات پائی جاتی ہیں وہاں کے مقامی لوگوں کو براہ راست اس کا فائدہ پہنچے۔اگر ان قواعد کر دانستہ طور پر نظر انداز کیاگیا تو نہ صرف معدنی ذخائر کی دریافت کا کام اور ترقی کا سفر بری طرح متاثر ہوگا۔