واضح راستہ

سامان ِتعیش کی درآمدات پر جزوی پابندی سے پاکستان کے درآمدی اخراجات (خسارے) پر قابو پانا ممکن نہیں اور نہ ہی اِس سے خاطرخواہ بچت ممکن ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے محض تین ماہ میں زرمبادلہ کے ذخائر پر ادائیگیوں کا بوجھ اِس حد تک کم ہو جائے گا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض لینے کی ضرورت نہیں رہے گی! پاکستان کی آمدنی میں اضافہ اور اخراجات کم ہو جائیں گے! اگر چہ سامان تعیش پر پابندی  ایک  بروقت اور اہم اقدام ہے تاہم اس کے حوالے سے اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے تو اُسے معاشی دباؤ کے محرکات پر غور کرنا چاہئے۔ پاکستان کی قومی ضرورت ساڑھے چھ ارب ڈالر خسارے پر قابو پانے کی ہے جبکہ 38 اشیا ء کی درآمدات چند ماہ کیلئے معطل کرنے سے 30 یا زیادہ سے زیادہ 50 کروڑ ڈالرز کی بچت ہوگی جبکہ اندیشہ یہ بھی ہے کہ کچھ درآمدکنندہ گان مذکورہ اشیاء پر اپنے منافع کی شرح میں اضافہ کر دیں اور اِس سے مہنگائی کی ایک نئی لہر جنم لے۔
 ذہن نشین رہے کہ قومی خزانے پر سب سے ”بڑا درآمدی بوجھ“ پیٹرولیم مصنوعات ہیں اور اِسی درآمدی جنس پر بجلی کی پیداوار کا بھی انحصار ہے۔ یہ الگ موضوع ہے کہ  پن بجلی کی بجائے تیل و گیس سے بننے والی بجلی پر انحصار کیوں کیا جارہا ہے۔ بہرحال بات یہ ہو رہی تھی کہ پاکستان کے قومی خزانے پر سب سے زیادہ بوجھ درآمدی تیل و گیس کا ہے۔ جولائی دوہزاراکیس سے اپریل دوہزاربائیس کے درمیانی عرصے میں بجلی کی پیداوار کیلئے تیل و گیس کی درآمدات مجموعی طور پر (لگ بھگ) 17 ارب ڈالر رہیں‘ جو اِس سے قبل‘ اِسی مدت (گزشتہ برس) آٹھ اعشاریہ سات ارب ڈالر تھیں۔ اگر پاکستان پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کم نہیں کرتا تو جن اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کی گئی ہے وہ آمدنی کے لحاظ سے ملک کے متوسط یا غریب طبقے کے زیراستعمال نہیں بلکہ سرمایہ دار اِن سے استفادہ کرتے ہیں‘ جو یہ آسائشیں کسی بھی صورت اور کسی بھی قیمت پر حاصل کرنے کی مالی سکت اور طاقت رکھتے ہیں۔ اندیشہ ہے کہ ایسی پُرآسائش مطلوبہ اشیا (جو مقامی طور پر تیار نہیں ہوتیں) کی غیرقانونی درآمدات (اسمگلنگ) میں اضافہ ہوگا‘ جس سے حکومت کو ٹیکس آمدنی کی مد میں خسارہ ہوگا اور چونکہ بلیک مارکیٹ میں سرمایہ کاری ہمیشہ ہی سے منافع بخش رہتی ہے اور کچھ لوگ ایسے مواقعوں کی تلاش و تاک میں بھی  رہتے ہیں۔
 اِس لئے حکومت کو درآمدات پر جزوی پابندی سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہونے کا احتمال ہے۔ اگر درآمدات پر پابندی کی بجائے اُن پر عائد محصولات کی شرح میں اضافہ کیا جاتا تو اِس سے عام آدمی (ہم عوام) سے زیادہ ٹیکس وصولی کی ضرورت نہ رہتی!توجہ طلب ہے کہ پاکستان کی جانب سے سامان تعیش پر پابندی کا فیصلہ ایک ایسے نازک موقع پر کیا گیا ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر اختتام کے قریب یعنی 10 ارب ڈالر جیسی نچلی سطح تک پہنچ چکے ہیں اور پاکستان روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے ہر دن اپنی قدر گنواتے ہوئے 200 روپے جیسی نفسیاتی و ملکی تاریخ کی بلندترین سطح بھی عبور کر چکا ہے! یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جاری مالی سال (دوہزار اکیس بائیس) کے پہلے 10 ماہ کے دوران درآمدات میں گزشتہ سال کے مقابلے ساڑھے چھیالیس فیصد اضافہ ہوا یعنی مجموعی طور پر دس ماہ کے عرصے میں ساڑھے پینسٹھ ارب ڈالر کے مساوی درآمدات ہوئیں اور جاری مالی سال کے بقیہ 2 ماہ کے دوران یہ درآمدات 77 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے لیکن جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے کہ سامان تعیش سے پیٹرولیم و گیس کی درآمدات کا بوجھ زیادہ ہے اس حوالے سے کوئی موثر پالیسی اور منصوبہ سامنے لائی جائے کیونکہ ایک طرف معاشی مندی‘ بیرونی قرضہ جات اور اُن پر سود کی ادائیگیوں جیسے مشکلات کے پہاڑ ہیں تو دوسری طرف معاشی مشکلات سے نکلنے یا اِس کی شدت میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے میں آ رہاہے۔
موجودہ ’معاشی مندی‘ کی شدت کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت مشکل فیصلے کرے بالخصوص توانائی کے شعبے میں دی جانے والی رعایت واپس لے لی جائے کہ جس کی وجہ سے معاشی بحران کی شدت میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔غور طلب ہے کہ اس وقت ملک میں سیاسی جلسے جلوسوں سے عام انتخابات کا ایسا گرما گرم ماحول بھی بن چکا ہے کہ جس میں عام آدمی (ہم عوام) کی اکثریت ذہنی طور پر قبل از وقت عام انتخابات کیلئے آمادہ ہو چکے ہیں۔ مختصر یہ کہ نواز لیگ کی گزشتہ چند ہفتوں کی حکومت میں انتہائی تجربہ کار ٹیم ہونے کے باوجود بھی معاشی بحران کا حل تلاش نہیں کیا جا سکا جبکہ سیاسی عدم استحکام نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا دورہئ امریکہ اور ’آئی ایم ایف‘ حکام سے ملاقاتیں اپنی جگہ اہم لیکن جب تک ’آئی ایم ایف‘ کا دیرینہ مطالبہ یعنی پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی رعایت (سبسڈی) ختم نہیں کی جائے گی‘ اُس وقت تک معاشی استحکام اور اصلاحات کے تکلیف دہ دور کا آغاز نہیں ہوگا۔
 پاکستان پر واضح ہو چکا ہے کہ سعودی عرب سمیت اہم اتحادیوں کی مالی امداد بھی ’آئی ایم ایف پروگرام‘ کی بحالی پر منحصر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو برسراقتدار رہنے کیلئے ’آئی ایم ایف‘ کی شرائط ماننا پڑیں گی! پاکستان کے معاشی استحکام کی جزئیات میں سرفہرست حکومتی اخراجات ہیں‘ جن میں غیرمعمولی کمی لانے کا اِس سے زیادہ موزوں وقت کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا جبکہ قومی سطح پر کفایت شعاری اپناتے ہوئے صرف ”میڈ اِن پاکستان“ اشیا کا استعمال اور غذائی خودکفالت کیلئے زرعی ترقی جملہ بحرانوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نکلنے (گلوخلاصی) کا واحد اور واضح (مختصر ترین) راستہ ہے۔ تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ اس بحران سے نکلنے کیلئے سیاسی جماعتیں سیاست سے بالا تر ہوکر ایک نکتے پر متفق ہوں۔ کیونکہ حکومتیں بدلتی رہیں گی تاہم جو حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ قومی مفاد کے منصوبوں پر تمام سیاسی قائدین کو متفق ہونا چاہئے عوامی مسائل اور ان کی مشکلات کو ختم کرنے کے لئے اب وقت آگیا ہے کہ سیاست سے ہٹ کر مشکل فیصلے کئے جائیں اور اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔