پشاور کہانی: اِنسان خسارے میں ہے!

خوبیاں خرابیوں میں تبدل ہو گئی ہیں! جس کا ایک مظہر اور ثبوت یہ ہے کہ ”پھولوں کے شہر“ کی فضائی آلودگی سے متعلق تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پشاور کے کچھ ایسے حصے بھی ہیں کہ جہاں پائی جانے والی ’فضائی آلودہ‘ کی سطح اِس قدر بلند ہو چکی ہے کہ وہاں سانس لینے والوں کی اوسط عمر میں 2.3 سال کی کمی ہو رہی ہے! علمی و تحقیقی اصطلاح میں ”فضائی آلودگی“ سے مراد ہوا میں پائے جانے والے انتہائی باریک ایسے دھاتی ذرات ہوتے ہیں جنہیں سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل کرنے کی صورت کئی اقسام کی پیچیدہ بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ اہل پشاور فضائی آلودگی کے باعث ناگہانی اموات کا شکار ہورہے ہیں اور اِس سے زیادہ کوئی بھی دوسری اہم یا ضروری یا تشویشناک بات نہیں ہو سکتی کیونکہ انسانوں کے پاس کرہئ ارض پر سب سے زیادہ قیمتی چیز ”زندگی (life)“ ہے اور اگر کسی وجہ سے اِسی قیمتی شے ”زندگی“ کا خاتمہ ہو رہا ہے تو یقینا ”انسان خسارے میں ہے!“”پشاور: فضائی آلودگی کی صورتحال“ نامی تحقیق غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے اشتراک سے قائم ”پشاور کلین ائر الائنس“ کی جانب سے باضابطہ طور پر جاری کر دی گئی ہے۔ اِس سے قبل مذکورہ رپورٹ کے چند حصے یا مندرجات جاری کئے گئے تھے تاہم خصوصی تقریب (نشست) کا اہتمام کیا گیا جس میں پائیدار و متبادل توانائی اور اقتصادی ترقی کے شعبوں میں کام کرنے والی اُن سبھی غیرسرکاری تنظیموں کے نمائندے شریک ہوئے جو ”پشاور کلین ائر الائنس“ کا حصہ ہیں اور اِن کی رپورٹ کے اجرأ کا بنیادی مقصد فقط حکومتی اداروں اور عوام پر تنقید ہی نہیں اور نہ ہی فضائی آلودگی کے بارے میں خوفناک اعدادوشمار جاری کر کے مایوس کن صورتحال مشتہر کرنا ہے بلکہ مختلف شعبوں کے ماہرین کی جانب سے فضائی آلودگی کم کرنے کیلئے تجاویز بھی دی جاتی ہیں تاکہ پشاور کی ہوا کا معیار بہتر ہو اور اِس بہتری کیلئے مشترکہ لائحہ عمل پیش کیا جاتا ہے۔ اہل پشاور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر وہ اپنے گردوپیش میں فضائی آلودگی کے محرکات کا سدباب کریں تو  یہاں اوسط عمروں (زندگی) میں 2.3 سال کا اضافہ ہو سکتا ہے لیکن اِس کیلئے اُنہیں فضائی آلودگی کو (کم سے کم) ”2.5 پی ایم“ کی سطح پر لانا ہوگا جو عالمی ادارہئ صحت کا فضائی آلودگی کی جانچ سے متعلق مقرر کردہ پیمانہ ہے

۔سوال: ایک عام شہری کس طرح فضائی آلودگی میں کمی لا سکتا ہے؟ اِس سلسلے میں چند عملی اقدامات تجویز کرتے ہوئے ماحول سے متعلق عوامی شعور کی سطح ایک درجہ بلند کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو اپنی جگہ صرف پشاور ہی نہیں 
 بلکہ خیبرپختونخوا کے گنجان آباد دیگر شہروں کی بھی ایک اہم ضرورت ہے۔ تجویز کیا گیا ہے کہ گھریلو کوڑا کرکٹ اور فضلا جلا کر تلف نہ کیا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے ماحول دشمن (مضر) گیسوں کا اخراج ہوتا ہے اور یہ گیسیں زمین کے درجہئ حرارت میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ نقل و حرکت کیلئے استعمال ہونے والی انفرادی گاڑیوں کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کیا جائے یا ایک ہی گھر کے رہنے والے ایک سے زیادہ گاڑیوں کے استعمال کی بجائے ایک دوسرے کے گھر سے باہر مصروفیات کے اوقات کو اِس طرح منظم و مرتب (ایڈجسٹ) کریں کہ ایک گاڑی کا استعمال ایک سے زیادہ لوگوں کیلئے ہو۔ ایسا کرنے سے نہ صرف ایندھن بلکہ گاڑیوں سے خارج ہونے والے مضر ماحول گیسوں کا اخراج بھی کم ہوگا۔ ماحول کی بہتری کیلئے تیسرا اقدام صنعتوں سے خارج ہونے والے دھویں میں کمی لانا ہے اور اِس سلسلے میں صنعتکار طبقہ صرف حکومتی پابندیوں اور قواعد ہی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی اخلاقی  ذمہ داری سمجھتے ہوئے فضا کو آلودہ کرنے کی شرح کم کرے اور یہ پہلو بھی پیش نظر رکھے کہ فیکٹریوں کی چمنیوں سے اگلنے والے کثیف دھویں سے اگر فضا کو آلودہ (زہریلا) کیا جا رہا ہے تو اِس سے صرف دوسرے ہی نہیں بلکہ وہ بذات خود اور اِس کے اہل و عیال اور عزیز و اقارب بھی یکساں متاثر ہو رہے ہیں! تحفظ ماحول یکساں اور مشترکہ ذمہ داری ہے‘ جس کیلئے معاشرے کے ہر فرد کو یکساں اور مشترکہ طور پر اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ”پشاور: فضائی آلودگی کی صورتحال“ نامی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جنوب ایشیائی ممالک میں پاکستان کے شہری علاقوں کی فضا نسبتاً زیادہ آلودہ ہے اور اِسی آلودگی کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں بھی زیادہ شدت سے ظہورپذیر ہو رہی ہیں جس سے غریب طبقہ متاثر ہے۔ اِس حقیقت کے بیان کا ایک مقصد حکومتی فیصلہ سازوں کو (لطیف اشارے سے) متوجہ کرنا ہے کہ اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ
 غربت کی شرح میں کمی آئے تو اِس کیلئے اُنہیں ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانا ہوگا کیونکہ بنا موسمی اثرات کو اپنے حق میں متوازن کئے‘ غربت میں کمی ممکن نہیں ہے۔ جہاں تک ضلع پشاور اور بالخصوص اندرون شہر کی بات ہے تو مذکورہ رپورٹ میں دیئے گئے اعدادوشمار کے ساتھ یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ پشاور میں فضائی آلودگی جانچنے کیلئے خاطرخواہ تکنیکی نظام باقاعدگی سے کام نہیں کر رہا جبکہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ گنجان آباد رہائشی و تجارتی علاقوں اور بالخصوص مصروف شاہراؤں کے آس پاس فضائی آلودگی پر مسلسل نظر رکھی جائے۔ کیا یہ بات فیصلہ سازوں اور اہل پشاور کیلئے باعث تشویش ہے کہ ”ورلڈ ائر کوالٹی رپورٹ دوہزاراکیس“ میں پشاور کو پاکستان کا تیسرا اور دنیا بھر میں نواں سب سے زیادہ آلودہ شہر قرار دیا گیا تھا جس کی وجہ یہ ہے کہ صحت کیلئے محفوظ فضائی معیار سے پشاور میں فضائی آلودگی کی شرح 12 سے 16 گنا (زیادہ آلودہ) ہے اور اِس آلودگی کے محرکات میں ٹرانسپورٹ کے ذرائع‘ صنعتیں‘ گھریلو سطح پر ٹھوس ایندھن کا استعمال اور شہری علاقوں کی حدود میں کوڑا کرکٹ یا فضلہ جلا کر تلف کرنے کی عادات ہیں‘ جن سے کثیف دھواں اُٹھتا ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ سال 2012ء سے 2020ء کے دوران ضلع پشاور میں رجسٹرڈ موٹرگاڑیوں کی تعداد میں 85فیصد جبکہ موٹرسائیکلوں کی تعداد میں 168.9 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جب ہم کسی بھی شہر میں آمدورفت کیلئے استعمال ہونیو الی گاڑیوں (وسائل) کی تعداد میں اضافے کی بات کرتے ہیں تو اِس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ دھواں اگلنے والے ذرائع کا شمار بڑھ گیا ہے۔ ضلع پشاور 512 مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور وقت ہے کہ اِس کے پرہجوم و گنجان آباد وسطی شہری علاقے سے کاروباری و تجارتی سرگرمیوں کو بیرون شہر منتقل کیا جائے اور صرف شہری آبادی کے تناسب و ضرورت کے مطابق پرچون سبزی پھل و غلہ منڈی یہاں رکھی جائیں۔ خیبرپختونخوا میں رجسٹرڈ ہونے والی 42 فیصد سے زائد گاڑیاں صرف پشاور میں رجسٹرڈ ہوتی ہیں! اِسی طرح خیبرپختونخوا میں مجموعی طور پر پائے  جانے والے تین صنعتی یونٹس میں سے 900 صنعتی یونٹ پشاور یا اِس کے مضافات میں ہیں جبکہ ساڑھے چارسو سے زائد اینٹوں کے بھٹے پشاور میں فضائی آلودگی کیلئے ذمہ دار قرار دیئے گئے ہیں! پشاور شہر کی حدود میں شجرکاری مہمات اور عوام میں فضائی آلودگی سے متعلق شعور اُجاگر کرنے سے اِس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن اِس کیلئے ہنگامی بنیادوں پرنشرواشاعت کے ہر ممکنہ ذرائع‘ وسائل اور اسباب بروئے کار لائے جانے چاہئیں۔