ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق صوبائی حکومت نے محکمہ بلدیات سے قومی احتساب بیوروکی زدمیں آنے والے افسران کی فہرستیں طلب کر لیں کچھ عرصہ قبل بھی یہ فہرستیں مانگی گئی تھیں محکمے کو ہدایت کی گئی ہے کہ پلی بارگین کرنے والے‘نیب کو رضاکارانہ طورپر رقم جمع کرنے والے‘اینٹی کرپشن اور دیگر احتساب کے اداروں میں پیش ہونے والے افسران کی فہرست بھی دی جائے‘ قومی احتساب بیورو‘اینٹی کرپشن اور محکمانہ انکوائریوں کی مکمل تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں‘دیگر اداروں سے ڈیپیوٹیشن پر آنے والے افسران اور ملازمین کی فہرست بھی طلب کی گئی ہے‘یہ بھی کہا گیا ہے کہ پول میں موجود تمام گاڑیوں کاریکارڈبھی جمع کرایاجائے مختلف منصوبوں کے لئے بیرونی اور مقامی فنڈزسے خریدی گئی گاڑیوں کی تفصیلات کے علاوہ‘افسران کے نام اور ان کو دی گئی گاڑیوں کی تفصیل اورناکارہ گاڑیوں کی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں‘گیسٹ ہاؤسزاور ریسٹ ہاؤسوں کی3سال کی آمدن اور ان میں مقیم افرادکے کوائف بھی طلب کئے گئے ہیں۔وزیربلدیات کو اپنے محکمے میں ہونے والی مبینہ انتظامی بے قاعدگیوں، مالی کرپشن اور سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کے حوالے سے شکایات ملی تھیں جن کی تحقیقات کے لئے محکمے کے اہلکاروں اور وسائل کا ڈیٹا جمع کیاجارہا ہے تاکہ بے قاعدگیوں کا کھوج لگا کر اس میں ملوث اہلکاروں کو قانون کے کٹہرے میں لایاجاسکے۔ اداروں میں اصلاحات اور تطہیر کا عمل گذشتہ سات آٹھ سالوں سے جاری ہے کسی بھی ادارے میں خود احتسابی کا کوئی موثر میکینزم موجود نہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ جن کے پاس زیادہ دولت، بڑی گاڑیاں، عالیشان بنگلے، جائیدادیں اور اثاثے ہوں انہیں قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اسی معاشرتی رویے کی وجہ سے کرپشن کو فروغ ملتا رہا۔سرکاری محکموں میں فرض شناس، حلال روزی پر اکتفا کرنے والے، محنتی اور قابل لوگوں کی کمی نہیں ہے مگر ایسے لوگوں کی معاشرے میں کوئی قدر نہیں ہے۔ محکمہ بلدیات کی طرح دیگر وفاقی اور صوبائی محکموں میں بھی وسائل کے بے دریغ استعمال، مالی اور انتظامی بے ضابطگیوں کا سدباب کیا جا سکتا ہے۔ صحت اور تعلیم کے محکموں میں اصلاحات لانے میں حکومت کو برسوں لگے تاہم ان کے مثبت اثرات سامنے آئے ہیں اگر چہ اب بھی بہت کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکار کے زیر انتظام اداروں کے اہلکاروں کو عوام کی مشکلات میں کمی لانے اور انہیں ریلیف فراہم کرنے کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں جس کے عوض انہیں قومی خزانے سے پرکشش تنخواہیں، رہائشی مکانات، گاڑیاں اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں اور قوم کے ٹیکسوں سے تنخواہ اور مراعات پانے والے قوم کے خادم ہوتے ہیں ان کے پاس موجود وسائل قوم کی امانت ہوتے ہیں جن میں خیانت قومی جرم ہے، اچھے اور دیانت دار اہلکاروں کی بھی کمی نہیں جو سرکاری فرائض اور وسائل کو امانت سمجھتے ہیں تاہم مٹھی بھر لوگ بدنامی کا باعث بنتے ہیں، ان میں سے کچھ لوگوں کو قرار واقعی سزا ملے تو کرپشن، غفلت اور بے قاعدگیوں کی شرح میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔موجودہ حکومت نے صوبے میں جو ادارہ جاتی اصلاحات متعارف کرائی ہیں ان کے خاطر خواہ نتائج سامنے آرہے ہیں تاہم ضروری ہے کہ اس عمل کو زیادہ تیز اور مربوط بنایا جائے کیونکہ باوجود کوششوں اور خلوص نیت کے اب بھی مسائل کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ بیماری ختم نہیں ہوئی کرپشن کا خاتمہ کرنے کے لئے جہاں ایک طرف حکومت کی طرف سے اقدامات کئے جاتے ہیں وہاں دوسری طرف اگر ہم میں سے ہر فرد یہ ارادہ کرے کہ وہ رشوت و سفارش سے اپنا کام نہیں نکالے گا تو یہ معاملہ بڑی حد تک سلجھ سکتا ہے۔کیونکہ یہ معاملہ محض سرکاری سطح پر حل ہونے والا نہیں قوانین کی موجودگی کے باوجود اس کی پاسداری نہ کرنا بھی ایک مسئلہ ہے اور اس کا تدارک کرنے کے لئے ہر فرد کو اپنی انفرادی کو بھی سمجھنا ہوگا۔