قرض اتارنے کی نئی تجویز

’قرض اتارو ملک سنوارو‘مہم سمیت ہم نے بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرنے کے بڑے جتن کئے مگر بات بنتی دکھائی نہیں دے رہی۔ بے بس ہوکر دوبارہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے رجوع کرتے رہے۔ اور قرضہ دلوانے کیلئے مالیاتی اداروں کے سخت شرائط پر بھی سرتسلیم خم کرتے رہے۔اگر ہم مکان بنانے، گاڑی خریدنے، شادی کرنے،کاروبار شروع کرنے یا دیگر مقاصد کے لئے مقامی بینکوں سے چند لاکھ کا قرضہ لینے کے لئے رجوع کرتے ہیں تو شرائط کی ایک طویل فہرست تھمادی جاتی ہے۔اربوں ڈالر کا قرضہ لینے کے لئے بین الاقوامی مالیاتی ادارے لامحالہ شرائط رکھیں گے۔ ہر کوئی اپنے اثاثوں کی واپسی کی ضمانت چاہتا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک خاتون نے بیرونی قرضہ اتارنے کی ایک ترکیب شیئر کی ہے جو ہمارے دل کو لگی۔ہم اسے بلاکم و کاست ارباب اختیار و اقتدار کے گوش گذار کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوگی بقول مرزا غالب ”قاصد کے آتے آتے خط ایک اور لکھ رکھوں، میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں“موصوفہ کا موقف ہے کہ ہمارے ملک میں وفاقی و صوبائی اداروں، خود مختار اور نیم خود مختار اداروں میں گریڈ سترہ سے بائیس تک ایک کروڑ سے زیادہ افسران کام کر رہے ہیں جن میں انتظامی سیکرٹری، ڈپٹی سیکرٹری، ڈائریکٹر جنرلز، سپرنٹنڈنٹس، سکولوں کے پرنسپلز، کالجوں کے لیکچررز اور پروفیسرز، ڈاکٹرز، پرائیویٹ سکولوں کے مالکان، پراپرٹی ڈیلرز، تحصیل دار، پٹواری، گرد آور، بزنس مین، فیکٹری مالکان، مل اونرز، بڑے تاجر، درآمد و برآمد کنندگان، سرمایہ داراور چالیس ایکڑ سے زیادہ جائیدادوں کے مالکان شامل ہیں۔
 ان سے حکومت بیس بیس ہزار روپے قرضہ لے لے۔ اس کے علاوہ سینٹ، قومی اسمبلی، پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان اسمبلی کے علاوہ کشمیراور گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران کی مجموعی تعداد ایک ہزار سے زیادہ بنتی ہے۔ یہ سارے لوگ ارب پتی ہیں حکومت ان سے پانچ پانچ کروڑ روپے قرضہ لے لے۔ گریڈ ایک سے سولہ تک کے سرکاری ملازمین کی تعداد بھی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے ان سے دو دو ہزار روپے قرضہ لے لے۔ پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کی تعداد بھی چالیس پچاس لاکھ بنتی ہے ان سے پانچ پانچ سو روپے کا قرضہ لیاجائے۔ یہ تمام قرضے ملا کر پانچ کھرب روپے بنتے ہیں حکومت بجٹ میں سے ایک کھرب روپے اس میں شامل کرے تو 34ارب ڈالر سے زیادہ بنتے ہیں۔تین ماہ کے دوران حکومت تمام بیرونی قرضے چکا سکتی ہے۔
اگلے تین مہینے تک ان مقامی قرضوں سے   دیگر ضروریات پوری کی جائیں اور عوام کو بنیادی شہری سہولیات فراہم کی جائیں۔جب بیرونی قرضوں سے جان چھوٹ جائے تو اگلے دو تین سال تک حکومت مقامی لوگوں سے لئے گئے قرضے قسطوں میں ادا کرتی رہے۔ چار سال بعد نہ صرف تمام بیرونی اور اندرونی قرضے ادا ہوں گے بلکہ پاکستان دیگر ممالک کو قرضہ دینے کی پوزیشن میں آئے گا۔ تجویز تو انتہائی معقول ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ اسی وجہ سے پوری قوم آج مقروض ہوگئی ہے۔ 
بہرحال ہم یہ تجویز قوم کے سامنے رکھ رہے ہیں تاکہ اپنے دل کو تسلی دے سکیں کہ ہم نے اپنے حصے کا کام تو کردیا ہے اب دیکھتے ہے کہ اس تجویز پر عمل درآمد کا اعزاز کس کو حاصل ہوتا ہے۔؟کیونکہ ماضی میں بھی ایسی گولڈن تجاویز سامنے آئی ہیں جن پر اگر عمل درآمد ہوتاتو آج ہم پر بیرونی قرضوں کا بوجھ نہ ہونے کے برابر ہوتا یا بالکل ہی ہم بیرونی قرضوں سے آزاد ہوتے اور ہر لحاظ سے خود کفیل ہوتے۔