آفات: بقا و حیات

اِنسانوں کے اپنے اعمال کا نتیجہ آفات وبلیات کو قدرتی قرار دینا درست نہیں۔ وفاقی دارالحکومت سے خیبرپختونخوا کے ضلع ہری پور کے جنگلات پہنچنے والی آگ پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ اِسی طرح کوہئ سلیمان  کے جنگلات میں لگنے والی آگ بھی قریب دو ہفتوں سے جاری ہے‘ جس پر محدود وسائل کے ساتھ قابو پانے کیلئے جدوجہد جاری ہے۔ کوہ سلیمان نامی سلسلہ ایران‘ پاکستان اور افغانستان تک 450 کلومیٹر (280 میل) علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ ”اُنیس مئی“ کے روز بلوچستان کے ضلع شیرانی میں چیڑ کے ہزاروں درختوں میں آگ لگنے سے کم از کم تین افراد جھلس کر ہلاک جبکہ چار زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
 ضلع شیرانی میں آگ بجھانے کے مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ جنگل کے وسیع رقبے پر لگی آگ پر قابو پانے کے لئے باوجود کوشش و خواہش بھی زیادہ کچھ نہیں کر سکے۔ اب حکام کا کہنا ہے کہ ایران نے آگ بجھانے کے لئے پاکستان کو خصوصی طیارہ فراہم کیا ہے جبکہ فوج نے آگ بجھانے کی کاروائیاں بھی شروع کر دی ہیں۔ جنگل میں لگنے والی آگ انتہائی خوفناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہے کیونکہ موسم گرما کی شدت اور تیز ہوا کی وجہ سے آگ سرسبز درختوں کو منٹوں میں خاکستر کر رہی ہے۔
 اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان کے کسی بھی حصے میں جنگل کی آگ بجھانے کیلئے خاطرخواہ تکنیکی و افرادی وسائل اُور تیاریاں دکھائی نہیں دیتیں۔ ہمارے ہاں ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے وفاقی اُور صوبائی سطح پر محکمے موجود ہیں لیکن یہ ہنگامی حالات کے رونما ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور حسب ضرورت اپنی تکنیکی و اَفرادی وسائل میں وقتی طور پر (عارضی) اضافہ کرتے ہیں جبکہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جنگل کی آگ سے نمٹنے کے لئے پورا سال ”خصوصی تیاری“ رکھی جائے اور بالخصوص اِس شعبے کو توجہ دی جائے کہ اگر ایک طرف حکومت ہر سال کروڑوں درخت لگانے میں سرمایہ کاری کرتی ہے جبکہ دوسری طرف جنگلات میں لگنے والی آگ سے ہر سال لاکھوں تناور درخت جل رہے ہیں!
 پاکستان میں جنگلات کی آگ کوئی ”نیا واقعہ“ نہیں ہے کہ اِس کا ذکر کرتے ہوئے مگرمچھ کے آنسو بہائے جائیں۔ جنگلات کی آگ کا ایک محرک ’ٹمبر مافیا‘ کی کارستانیاں بھی ہیں جو لکڑی چوری کرنے کیلئے چھوٹے پیمانے پر آگ لگاتے ہیں اور جنگل کے بڑے حصے میں درختوں کو خردبرد کر لیتے ہیں! لمحہئ فکریہ ہے کہ پاکستان میں ہر سال جنگلات میں لگنے والی آگ کے واقعات بڑھ رہے ہیں اور یہ اضافہ غیر معمولی ہے جبکہ متعلقہ حکام کی جانب سے ردعمل دلی لاتعلقی پر مبنی روایتی‘ سرد اور سست ہوتا ہے۔ کہوٹہ سے مارگلہ کی پہاڑیوں تک جنگلات میں لگنے والی حالیہ آگ نے نہ صرف نباتات اور حیوانات کو تباہ کر دیا ہے بلکہ بدقسمتی سے ٹک ٹوکرز اور سوشل میڈیا کے شوقین افراد کے لئے بھی ایک کشش بن گیا ہے۔
 بیس مئی کو ٹک ٹوکر نوشین سعید عرف ڈولی کو ویڈیو فلمانے کے دوران جنگل کو آگ لگانے کے الزام میں درج مقدمے کے سلسلے میں عبوری ضمانت دی گئی تھی۔ مئی کے تیسرے ہفتے میں ٹک ٹاک کی دو الگ الگ ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ ایک میں دو نوجوانوں کو مارگلہ ہلز پر جنگل کو آگ لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور دوسری ڈولی جنگل میں آگ کے سامنے پرفارم کر رہی ہے۔ یہ مایوس کن ہے کہ جنگلات کے احاطہ کے تحفظ کے ذمہ دار محکمے یا تو آگ سے غافل رہے یا اسے معمولی سمجھا گیا۔ مری کی پہاڑیاں بھی خاص طور پر اس طرح کی آگ کا شکار رہتی ہیں جو منٹوں میں نہیں تو گھنٹوں کے اندر درجنوں ایکڑ رقبے پر جنگلات کوکھا جاتی ہیں جو تیزی سے پھیلتی ہے اور اِس کا حل فوری ردعمل کی صورت صرف اِسی طور ممکن ہے جبکہ پہلے سے تیاری کر لی گئی ہو۔ جنگل کی آگ اکثر قدرتی آفت نہیں ہوتی بلکہ اِسے قدرتی آفت کی شکل دی جاتی ہے۔ وقت ہے کہ عوام الناس بالخصوص جنگل سے متصل علاقوں میں رہنے والوں کو ”موسمیاتی (ماحولیاتی)تبدیلیوں کے منفی اثرات“ بارے آگاہ کیا جائے۔ انسانوں کو ”کرہئ ارض“ پر رہنے اور اپنی بقا کے ساتھ ”ہم زمین جانداروں“ کی بقا و حیات کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔