خیبر پختونخوا حکومت نے تعلیم اور صحت کے شعبوں کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست قرار دیا ہے گذشتہ نو سالوں میں ان دونوں شعبوں میں اصلاحات کیلئے بہت سے اقدامات کئے گئے۔ سینئر ڈاکٹروں کو ہسپتالوں میں ڈیوٹی دینے کا پابند بنایاگیا۔ پشاور کے تدریسی ہسپتالوں کو بہترین سہولیات سے آراستہ کیاگیا۔ اوپی ڈی آنے والے مریضوں کو مفت ادویات اور ٹیسٹوں کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ ہیلتھ کارڈ کے ذریعے صوبے کی تمام آبادی کو دس لاکھ روپے سالانہ تک مفت علاج کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔دیہی علاقوں میں ڈیوٹی دینے والے ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکل سٹاف کی تنخواہوں میں مراعات میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ کیاگیا۔ کورونا وباء کے دوران صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں نے دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کی یادگار مثالیں قائم کیں کئی ڈاکٹر اور نرسیں اس وباء کے ہاتھوں اپنی جانیں گنوابیٹھیں۔صوبے کے مختلف اضلاع میں ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن کے اعلانات کئے گئے ہیں۔تاہم صحت کے شعبے میں اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
موجودہ حکومت نے عوام کے دیرینہ مطالبے پر اپرچترال کو الگ ضلع کا درجہ دیدیا تھا۔تاہم اب تک ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال قائم نہیں ہوسکا۔ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال بونی میں خاطر خواہ سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گذشتہ روز ہسپتال کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک فوٹیج اپ لوڈ کرنے پر انتظامیہ نے ایک نوجوان کو گرفتار کرلیا۔ جس پر عوامی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ ٹی ایچ کیوہسپتال بونی پورے ضلع کی ضروریات پوری کرنے کیلئے انتہائی ناکافی ہے۔ یہاں گریڈ انیس کا کوئی سینئر ڈاکٹر موجود نہیں۔گریڈ اٹھارہ کی آٹھ آسامیوں میں سے سات ابھی تک خالی ہیں۔ پورا ہسپتال گریڈ سترہ کے آٹھ ڈاکٹروں کے بل بوتے پر چل رہا ہے۔ نرسوں اور پیرامیڈیکل سٹاف کی آدھی آسامیاں خالی ہیں۔ ہسپتال میں صرف 62ملازمین ہیں جو تین شفٹوں میں کام کرتے ہیں ہسپتال میں لیبارٹری، الٹراساؤنڈ، سی ٹی سکین، ایم آر آئی، فیزیوتھراپی کی کوئی سہولت تاحال موجود نہیں۔فارمیسی میں ادویات کی مقدار بھی ضلع بھر کی ضروریات کے لئے ناکافی ہے۔
ایسی صورتحال میں عملے کے لئے ہسپتال آنے والے تمام لوگوں کو مطمئن کرنا ممکن نہیں ہے۔ مستوج، تورکہو اور موڑکہو میں بنیادی صحت مراکز اور دیہی صحت مراکز موجود ہیں وہاں بھی طبی سہولیات کی کمی ہے‘جس کی وجہ سے لوگوں کو علاج کیلئے ڈی ایچ کیوہسپتال چترال یا پشاور آنا پڑتا ہے۔یہی صورتحال کوہستان، مہمند، دیر، تورغر، شانگلہ، بٹگرام، اورکزئی، کرم، وزیرستان اورصوبے کے دیگر پسماندہ اضلاع کے طبی مراکز کی ہے جس کی وجہ سے شہر کے بڑے ہسپتالوں پر مریضوں کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔یارخون، لاسپور، تریچ، سوسوم، مداکلشٹ،دامیل، ارندو، دیر کوہستان، میدان، شرینگل، ٹانک، ہنگو، شانگلہ، بونیر، بٹگرام، کوہستان اور صوبے کے دیگر دور دراز علاقوں میں تشویش ناک مریضوں، قدرتی آفات اور حادثات کے زخمیوں کو سیدھا حیات آباد کمپلیکس، کے ٹی ایچ اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچایاجاتا ہے۔
صوبے کے دیگر اضلاع سے بڑی تعداد میں مریضوں کی آمد کے باعث پشاور اور نواحی علاقوں کی آبادی کو اپنے ہسپتالوں سے کم طبی سہولیات مل رہی ہیں جس کی وجہ سے وہ سرکاری ہسپتالوں سے نالاں نظر آتے ہیں۔ صوبے کے بڑے ہسپتالوں پر مریضوں کا دباؤ کم کرنے کیلئے حکومت کو ضلعی اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کو بہتر طبی سہولیات سے آراستہ کرنا ہوگا تاکہ دیہی علاقوں کے لوگوں کو اپنے گھروں کے قریب مرض کی تشخیص اور علاج معالجے کی بہتر سہولیات میسر آسکیں۔اگر دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر طبی عملے کو اپنے علاقوں میں لازمی خدمات انجام دینے کا پابند بنایاجائے تو دیہی علاقوں کے صحت مراکز کی کارکردگی بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔