پشاور کہانی: درد ِسر 

صوبائی دارالحکومت پشاور میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کیلئے اُن خرابیوں کا سدباب ضروری ہے جن کی وجہ سے ’پھولوں کا شہر‘ کے کچھ علاقوں میں آب و ہوا  اِس حد تک زہریلی ہو چکی ہے کہ وہاں سانس لینے والے زندگی سے دور اور موت سے ہر دن قریب ہو رہے ہیں۔ اِس سنگین صورتحال کی بازگشت عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) میں بھی سنائی دے رہی ہے جہاں ’چوبیس مئی دوہزار بائیس‘ کے روز عدالت ِعالیہ نے بھٹہ خشت مالکان کو ہدایات جاری کیں کہ اینٹیں بنانے کے عمل میں ماحول دوست یعنی ایسے نسبتاً محفوظ ایندھن کا استعمال کریں جس سے کم مقدار میں ماحولیاتی آلودگی پھیلتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ روایتی طور پر بھٹوں میں ربڑ اور پلاسٹک کو جلایا جاتا ہے جن سے پیدا ہونے والی حرارت زیادہ دیر رہتی ہے اور اِیندھن کے اِن ذرائع کی قیمت بھی نسبتاً کم ہے تاہم اِن سے کثیف دھواں پیدا ہوتا ہے جس سے پشاور کی فضا میں آلودگی کا تناسب بڑھ رہا ہے۔
گرمی کی شدت میں اضافے اور بارشوں کو روکنے کا باعث بننے والی یہ فضائی آلودگی تشویشناک حدوں کو پہنچنے کے بعد حکومتی ادارے حرکت میں آئے ہیں لیکن زیادہ تر اقدامات نمائشی ہیں۔ اینٹوں کے بھٹے میں ’زگ زیگ (Zig Zag)‘ نامی طریقے سے آگ جلانے سے کم ایندھن کے استعمال سے زیادہ مقدار میں حرارت حاصل کی جا سکتی ہے لیکن بہت کم بھٹہ خشت مالکان نے اِس نئی ٹیکنالوجی کو اختیار کرنے میں سرمایہ کاری کو ضروری سمجھا ہے۔تحفظ ماحولیات کے صوبائی ادارے ”خیبرپختونخوا انوئرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (EPA)“ کے مطابق خیبرپختونخوا میں قریب 800 اینٹ سازی کے بھٹے (Brick Klins) ہیں جن میں سے 300 ضلع پشاور کی حدود بالخصوص پشاور کے شہری علاقے کے قریب واقع ہیں اور یقینا گنجان آباد پشاور شہر (اندرونی علاقوں) کی فضا میں پائی جانے آلودگی میں بڑی حصہ داری اِنہیں بھٹہ خشت کی ہے۔
 آزاد ذرائع کے مطابق پشاور کے اردگرد 300 نہیں بلکہ ساڑھے چار سو سے 500 تک اینٹیں بنانے کے مراکز ہیں! تعداد جو بھی ہو لیکن حکومتی اور غیرحکومتی ذرائع یکساں تسلیم کرتے ہیں کہ بھٹہ خشت مالکان تحفظ ماحول کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں اور قواعد کا خاطرخواہ لحاظ نہیں رکھ رہے۔ بھٹہ خشت کے مالکان زیادہ منافع کیلئے انتہائی خراب معیار کا کوئلہ‘ استعمال شدہ پیٹرولیم مصنوعات‘ پرانی ربڑ اور تلف کرنے کی غرض سے پھینکی جانے والی پلاسٹک کا استعمال کرتے ہیں چونکہ مذکورہ سبھی ایندھن کے ذرائع کم جلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اِس لئے جلنے کے عمل میں اِن سے ایسا زہریلا (toxic) دھواں بنا تطہیر فضا میں خارج کر دیا جاتا ہے جس میں مختلف مضرماحول و انسان ذرات شامل ہوتے ہیں اور یہی امر (درد ِسر) صرف پشاور ہی کے لئے نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع کے لئے پریشانی اور فضائی آلودگی کا باعث بنا ہوا ہے۔ ”پشاور کی فضائی آلودگی اور بھٹہ خشت کے کردار سے متعلق مقدمے کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ قیصر رشید خان خود اِس مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں جبکہ اُن کے ساتھ جسٹس شکیل پر مشتمل بینچ کی جانب سے یہ تاثرات (ریمارکس) سامنے آئے ہیں کہ ”ماحولیاتی آلودگی پھیلنے کا باعث بننے والے محرکات کو محض اِس جواز پر جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ بھٹہ خشت مالکان کے پاس اتنا سرمایہ (مالی وسائل) نہیں کہ وہ ازخود (اپنی مدد آپ کے تحت) ماحول دوست طریقوں اور ٹیکنالوجی سے کام لیں۔“ 
شاید عدالت ِعالیہ کے علم میں ”آغا خان یونیورسٹی کراچی“ کی وہ تحقیق بھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھٹہ خشت کارکن (مزدور‘ محنت کش) اِن بھٹوں سے اُٹھنے والے دھویں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جنہیں سانس کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں اور یہ دائمی کھانسی (chronic cough)‘ بلغم‘ سانس لینے میں دقت و تکلیف‘ دمہ اُور دیگر ایسے دائمی امراض سے واسطہ رہتا ہے جبکہ ایسے مزدوروں کا طبی معائنہ اُور اُنہیں طبی امداد بھی باقاعدگی سے نہیں ملتی یا میسر نہیں ہوتی۔ تکنیکی طور پر ’فضا میں سلفر ڈی آکسائیڈ (Sulfur Dioxide) کی موجودگی کا محفوظ تناسب 80 پی پی ایم ہوتا ہے  جبکہ بھٹہ خشت کے قریب اور آس پاس یہ تناسب 14ہزار سے 27 ہزار پی پی ایم تک ہوتاہے اور صرف یہی نہیں کہ بھٹہ خشت پر کام کرنے والے یا آس پاس کے علاقوں میں رہنے والوں کی صحت اور جسمانی نشوونما آلودہ فضا میں سانس لینے سے متاثر ہوتی ہے بلکہ اِس آلودہ فضا میں پیدا ہونے والی سبزی‘ پھل اور دیگر زرعی پیداوار بھی معیار و مقدار کے لحاظ سے متاثر ہوتی ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ اگر ماحول کے تحفظ سے متعلق قوانین و قواعد موجود ہیں اور جہاں کہیں اُن پر عمل درآمد کی کوشش کی جاتی ہے تو کوئی نہ کوئی ایسی رکاوٹ آڑے آ جاتی ہے جس کی وجہ سے ماحول دشمن اقدامات کی اصلاح نہیں ہو پاتی اور یہی مشکل اِس مرتبہ بھی سامنے آئی ہے۔ 
بھٹہ خشت میں اگر جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے تو اِس سے تحفظ ماحول کے علاؤہ اعلیٰ معیار کی اینٹ بھی حاصل ہوتی ہے جو زیادہ مضبوط و پائیدار اور خوبصورت ہوتی ہے اور اِس کی قیمت (دام) بھی نسبتاً زیادہ ملتے ہیں جبکہ مانگ کی وجہ سے اِن کی فروخت بھی جلد ہو جاتی ہے۔ مذکورہ ایندھن جلانے کی ’زگ زیگ ٹیکنالوجی‘ کا پہلی مرتبہ استعمال نیپال میں کیا گیا تھا جس کے بعد سے اِِس کا استعمال کئی ممالک میں ہو رہا ہے۔ بھٹہ خشت مالکان کی نمائندہ تنظیم  کے مطابق زگ زیگ ٹیکنالوجی‘ پر منتقل ہونے کیلئے ہر بھٹہ خشت کو کم سے کم ساٹھ لاکھ (چھ ملین) روپے درکار ہیں جبکہ تحفظ ماحول کے صوبائی ادارے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کام پندرہ سے بیس لاکھ (دو ملین) روپے میں ہو سکتا ہے۔ اِس لئے تحفظ ماحول کے صوبائی ادارے اور بھٹہ خشت مالکان کی نمائندہ تنظیم کو مل بیٹھ کر اِس مسئلے کا کوئی جامع اور پائیدار حل نکالنا چاہئے تاکہ تحفظ ماحول سے متعلق قوانین و قواعد اور تحفظ روزگار سمیت کام کاج کی جگہوں پر مزدوروں کی صحت و سلامتی جیسے اہداف بھی حاصل ہو سکیں۔