احساس جگائیں پھر مہم چلائیں 

پشاور کودوبارہ پھولوں کا شہربنانے کے حوالے سے ہفتہ وار صفائی مہم اگلے ہفتے شروع کرنے کا اعلان کردیاگیا۔ مہم کے دوران شہر کی گلی کوچوں سے کوڑا کرکٹ ہٹایاجائے گا۔ تحصیل،ویلج اور نیبر ہڈ کونسلو کے منتخب چیئرمین اورکونسلرز صفائی مہم کی قیادت کریں گے۔میئر پشاور نے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اوربلدیاتی اداروں کے تمام منتخب ارکان سے سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھ کر شہر کی ترقی کیلئے اپنا کردار اداکرنے کی استدعا کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کواپنے شہر کی خوبصورتی،قیام امن اور تعمیر وترقی کیلئے ایک پیج پر ہونا ہوگا پشاور کو تجاوزات سے پاک کرنے کے لئے بھی عوام کے منتخب نمائندوں کو سرجوڑنا ہوگا۔میئر پشاور نے ڈائریکٹر ایسٹ اینڈ ویسٹ کو ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہاکہ مقررہ مدت کے اندرشہر کوتجاوزات سے پاک کیاجائے قبرستانوں پر غیر قانونی قبضہ کرنے والوں کے خلاف آپریشن شروع کیا جائیگا۔
پشاور صوبائی دارالحکومت ہونے کے ناطے صوبے کے تمام اضلاع سے تعلق رکھنے والوں کا مشترکہ شہر ہے۔ اوریہاں امن و امان قائم رکھنا، سماجی برائیوں کی نشاندہی اورصحت و صفائی کا خیال رکھنا ہر شہری کا قومی فریضہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم من حیث القوم اپنے قومی سے ہمیشہ کوتاہی برتتے ہیں۔ گھر کا کوڑا کرکٹ شاپنگ بیگ میں بند کرکے کھڑکی سے باہر گلی میں پھینک دیا جاتا ہے۔ یا گلی کے نکڑ پر ڈھیر کردیاجاتا ہے شہر کی خوبصورتی کیلئے سڑک کنارے سدابہار پودے، پھول اور گھاس لگائے جاتے ہیں چند ماہ کے اندر وہاں سبزے کے بجائے دھول اڑ رہی ہوتی ہے۔ شاہی باغ اس شہر کا تاریخی اور نہایت خوبصورت پارک ہوا کرتا تھا۔
 جنہیں ہم نے کرکٹ  اور فٹ بال گراونڈ اور کشتیوں کیلئے اکھاڑے بناکر تباہ کردیا۔پلوں کے ساتھ خوبصورت گلدان سجائے گئے تھے چند ماہ کے اندر انہیں توڑ پھوڑ دیا گیا۔ قومی اثاثوں کی حفاظت کرنا ہر محب وطن شہری کا اخلاقی اور قومی فریضہ ہوتا ہے اگر ہم میں سے ہر شخص اپنے فرائض قومی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرے‘ تو کوئی مسئلہ نہ ہو‘حقوق و فرائض کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر ہم اپنی قومی ذمہ داریاں پوری کریں گے تب ہی شہری حقوق کا استحقاق رکھتے اور ان کی فراہمی کا تقاضا کرسکتے ہیں۔صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے تجاوزات کے خلاف ہر ہفتے مہم چلائی جاتی ہے لیکن تجاوزات ختم ہونے کے بجائیبڑھتی جارہی ہیں۔
لوگ اپنا مکان بنانے کے لئے اینٹ، سریہ، ریت اور بجری لاکر سڑکوں پر ڈھیر کردیتے ہیں جس کی وجہ سے عام لوگوں خصوصاًخواتین اور سکول کے بچوں کے لئے آمدورفت میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔مصروف کاروباری مراکز میں گاڑیاں پارک کرتے ہیں یا فٹ پاتھوں پر دکانیں سجا کر بیٹھ جاتے ہیں جس سے شہریوں کو پیش آنے والی مشکلات کا کسی کو احساس تک نہیں ہوتا۔ بازاروں میں ٹیمیں  تجاوزات کے خلاف آپریشن  توکرتی ہیں تاہم آپریشن کرنے والی مخصوص گاڑی کو دیکھتے ہی چند لمحوں کے اندر پورے بازار کو الرٹ کیاجاتا ہے خوانچہ فروش اور ریڑھی بان پلک جھپکتے ہیں کونوں کھدروں میں چھپ جاتے ہیں اور چھاپہ مار ٹیم کے گزرنے کے ساتھ ہی سڑکیں اور فٹ پاتھ تجاوزات سے بھر دیئے جاتے ہیں۔صرف سرکاری خرچے پر مہمات چلانے سے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ بلکہ اس مقصد کیلئے سماجی حقوق اور فرائض کے حوالے سے لوگوں کی ذہنی تربیت ضروری ہے۔