لمحہئ فکریہ ہے کہ پشاور کے طول و عرض میں کئی ایک ایسے مقامات ہیں جو نشے کے عادی افراد کے ”مستقل ٹھکانوں“ کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں اور اِن کے خاتمے کا ایک عرصے سے عوامی مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ شاید یہی وجہ رہی ہو صوبائی حکومت متوجہ ہوئی اور اُس نے پشاور کی ضلعی انتظامیہ کو منشیات فروشی و استعمال کے منظم دھندے و معمولات کے خلاف کاروائی کی ذمہ داری سونپی جس کے بعد سے غوروخوض (سرکاری اجلاسوں) کا سلسلہ شروع ہوا‘ مختلف حکومتی اداروں کا مربوط و متوقع ردعمل سامنے آیا اور پہلے مرحلے کی پہلی کاروائی ”پچیس مئی دوہزاربائیس“ کے روز رات گئے تک جاری رہی جس دوران پشاور کے مختلف حصوں سے منشیات کے عادی افراد کو حراست میں لینے اور اُنہیں بحالی مراکز منتقل کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اِس موقع پر کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کیلئے پولیس کے افرادی و تکنیکی وسائل بھی استعمال کئے گئے اور سب سے اہم بات یہ رہی کہ اِس مرتبہ پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے بنا کسی اعلان عملی کاروائی کی‘ جس دوران حیات آباد (کارخانو مارکیٹ) سے لیکر گل بہار تک ڈیڑھ سو نشے کے عادی افراد کو حراست میں لینے کی تصدیق کی گئی ہے۔
یہ عادی افراد (addicts) انتہائی خراب صحت اور مختلف بیماریوں میں مبتلا بتائے جاتے ہیں جبکہ ایک دوسرے کے زیراستعمال انجکشن (سرنج) کے ذریعے نشہ آور ادویات لینے کی وجہ سے مختلف بیماریاں کا شکار ہیں جو نشے سے بھی زیادہ پیچیدہ اور بعض صورتوں میں ناقابل علاج بھی ہیں! ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ”اِن بے گھر افراد میں سے اکثریت کا تعلق صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے دور دراز اضلاع سے ہے‘ جن کی شناخت مکمل ہونے پر اہل خانہ سے رابطہ کیا جا رہا ہے تاکہ بحالی کے بعد یہ اپنے اپنے آبائی شہروں میں واپس جا کر عملی زندگی وہیں سے شروع کریں جہاں سے اِس کا سلسلہ ٹوٹا تھا۔“ اِس پوری کاروائی (episode) میں حصہ لینے والے پشاور کی ضلعی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق ”روزگار کی تلاش میں پشاور آنے والے نوجوانوں کی اکثریت نشے کی لت میں پڑ جاتی ہے اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بے گھر افراد جن مقامات پر قیام و طعام رکھتے ہیں‘ وہاں اردگرد نشے کے عادی اور منشیات فروشوں کے گروہ پھیلے ہوتے ہیں جو معاشی مشکلات کا شکار اور مایوس افراد کو باآسانی نشے کی طرف مائل کر لیتے ہیں کیونکہ معاشی عدم تحفظ کی وجہ سے اُنہیں ذہنی سکون کی ضرورت ہوتی ہے اور اُنہیں یہ حقیقت بھی نہیں بتائی جاتی کہ چند لمحوں کے سکون کی خاطر وہ اُن کی زندگی نشے کی نذر ہو کر داؤ پر لگ جائے گی‘ اِس لئے وہ ایک آسان انتخاب کرتے ہیں جو بعدازاں اُن کے لئے ایک نہ حل ہونے والی مشکل بن جاتا ہے!“
کمشنر پشاور ڈویژن (ریاض خان محسود) کی زیرنگرانی نشے کے عادی افراد کے خلاف جاری (موجودہ) مہم کا گھیرا اُن منشیات فروش گروہوں کے خلاف بھی تنگ ہونا چاہئے‘ جو اِس پوری صورتحال کیلئے مرکزی کردار (اصل مجرم) ہیں۔ نشہ آور اشیا کی بارش آسمان سے نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ خودرو جھاڑیوں سے حاصل کی جاتی ہیں۔ اِس مرتبہ بھی‘ منشیات کے جن عادی افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اُنہیں زیادہ سے زیادہ آئندہ 3 ماہ (چند ہفتوں) تک بحالی کے مختلف مراکز میں رکھا جائے گا لیکن چونکہ اِن 3 ماہ کے بعد اُن کی جسمانی و ذہنی صحت اِس قدر بہتر نہیں ہوئی ہو گی کہ وہ فوری طور پر کسی جسمانی یا ذہنی مشقت (ہنرمندی) کا کام کر سکیں اِس لئے منشیات کے ایسے عادی افراد جن کا علاج معالجہ کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہو گا اور گمان یہ ہوگا کہ اُن کی قوت ارادی بھی اِس حد تک مضبوط ہو چکی ہے کہ وہ آئندہ مفت ملنے والی منشیات کا انتخاب نہیں کریں گے تو ایسے افراد پر آئندہ چند برس نظر رکھنے اور اُن کی مالی معاونت کے بندوبست پر بھی غور ہونا چاہئے۔ اِس سلسلے میں حکومتی سماجی فلاح و بہبود کے منصوبے پہلے ہی سے موجود ہیں تاہم اِن میں منشیات کے عادی افراد کی مالی مدد کیلئے کوئی خصوصی حکمت عملی (فنڈ) موجود نہیں ہے۔
منشیات کے عادی افراد کی ایک تعداد اپنے جسمانی اعضا اور خون کے فروخت کرنے جیسی انتہا تک بھی چلی جاتی ہے۔ اِس رجحان اور دھندے کا سدباب کرنے کیلئے اعضا اور خون کی خریدوفروخت کے مراکز (نجی میڈیکل (پیتھالوجیکل) لیبارٹریز) کے خلاف بھی کاروائی کی ضرورت ہے۔ درحقیقت منشیات کا استعمال اور منشیات فروشی معاشرے ایک طرح سے سرایت کر چکے ہیں۔ دوسری اہم بات تعلیمی اداروں میں منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال ہے جہاں سگریٹ کی فروخت اور تمباکو نوشی پر پابندی کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ پشاور کی ضلعی انتظامیہ کو ایسے تمام خصوصی و منفی محرکات پر بھی نظر رکھنی ہوگی کہ جہاں ایک طرف سڑک کنارے‘ الجھے بالوں اور پھٹے پرانے گندے کپڑوں میں ملبوس منشیات کے عادی افراد حکومت و معاشرے کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں وہیں تعلیمی اداروں میں ذہانت اور کمسنی شکار ہو رہی ہے!پشاور کی ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ حکومتی ادارے ”فروری دوہزاربائیس“ سے انسداد منشیات کیلئے لائحہ عمل کی تشکیل کر رہے تھے۔
ایک موقع پر ضلعی انتظامیہ نے صوبائی حکومت سے 9 کروڑ (90ملین) روپے بھی طلب کئے گئے تاکہ اندازوں کے مطابق پشاور میں موجود 1 ہزار نشے کے عادی افراد کا علاج معالجہ کیا جا سکے۔ نشے کے اِن عادی افراد میں 14 سے 45 سال کی عمر کے افراد فوری توجہ کے مستحق بتائے گئے جو مختلف ذہنی و جسمانی بیماریوں میں مبتلا بتائے گئے لیکن یہی وہ مقام ہے جہاں تک ہر چند برس پہنچنے کے بعد بھی انسداد منشیات اور نشے کے عادی افراد کا مسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ نشے کے عادی افراد کو صرف علاج معالجہ اور وقتی مالی امداد نہیں بلکہ سہارے کی ضرورت ہے۔ بیروزگاری کی بلند شرح کی وجہ سے ہنرمند اور بغیر ہنر افرادی قوت منشیات فروشوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ ریاست (حکومت) کا کردار ”والدین (سرپرست)“ کی طرح ہو تاہے۔ اگر سماج کے کسی طبقے کو سرپرستی اور معاشی تحفظ (کفالت) کی ضرورت ہے تو اِس ضرورت (حاجت) کو پورا کرنا بھی حکومت اور حکومتی اداروں ہی کی ذمہ داری بنتی ہے۔ انسداد منشیات کی ضرورت اپنی جگہ‘ نشے کے عادی افراد کی بحالی مراکز میں چند ہفتے میزبانی اپنی جگہ لیکن اِن مسائل کا حل اُس وقت تک ممکن نہیں ہوگا جب تک درست ترجیحات کے ساتھ‘ حکمت ِعملیوں کی جامعیت و تکمیل جیسے فراموش پہلوؤں کو خاطرخواہ توجہ نہیں دی جائے گی۔