فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیرین ابوعاقلہ الجزیرہ ٹیلی ویژن سے وابستہ تھی جسے گیارہ مئی دوہزار بائیس کے روز اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں قتل کیا گیا لیکن اسرائیل کے جنگی جرائم کا شمار دیکھتے ہوئے یہ قتل زیادہ حیران کن نہیں جس کی پوری دنیا میں مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ فلسطینی صحافیوں کی نمائندہ تنظیم کے مطابق وہ چھیاسویں ایسی صحافی ہیں جو 1967ء میں اسرائیل کے مغربی کنارے‘ غزہ اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کے بعد سے قتل ہوئی ہیں اُور مذکورہ عرصے سے اسرائیلی ظلم و جبر کا سلسلہ بھی جاری ہے‘ جس کی خبرنگاری کرتے ہوئے 86 صحافی اپنی زندگیاں پیشہ ورانہ فرائض کی بجاآوری کی نذر کر چکے ہیں۔ شیرین ابوعاقلہ کا صرف قتل ہی نہیں کیا گیا بلکہ اُن کے جنازے (کفن) کی بھی بے حرمتی کی گئی اُور جنازے کے جلوس پر اسرائیلی فوجیوں نے تشدد کیا۔ شیریں کا جنازہ آخری رسومات کی ادائیگی کے لئے گرجا گھر (چرچ) لیجایا جا رہا تھا اُور اُس کے کفن کو فلسطینی پرچم میں لپیٹا گیا تھا جسے دیکھتے ہی اسرائیلی فوجیوں نے جنازے کے شرکا پر تشدد کیا جس کے نتیجے میں کفن زمین پر گر گیا۔ یہ مناظر سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں پھیل گئے۔
محترمہ شیریں کے قتل اُور جنازے پر حملے نے ایک بار پھر اسرائیلی نسل پرستی اور فلسطینیوں کے خلاف تشدد کی ساختی نوعیت کو طشت ازبام کیا ہے جیسا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کی تنظیم ”ایمنسٹی انٹرنیشنل“ نے بھی اسرائیل کی مذمت کی ہے شیریں ابو عاقلہ کو جان بوجھ کر اسرائیلی اسنائپر نے قتل کیا کیونکہ جب فلسطینی احتجاج کرنیو الے ایک گروہ پر فائرنگ کی گئی تو اس نے ہیلمٹ اور نیلے رنگ کی حفاظتی واسکٹ پہن رکھی تھی جس پر واضح طور پر ’پریس‘ بھی لکھا ہوا تھا اُور دیگر صحافی بھی اُس کے ہمراہ تھے لیکن شریں کے سر میں گولی مار کر اُسے ہلاک کیا گیا۔ اس طرح کے بدنما واقعات رونما ہونے کے بعد اسرائیلی حکام فلسطینیوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں جیسا کہ اِس مرتبہ بھی اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کے اسرائیلی حکام نے کہا کہ ”فلسطینی مسلح افراد اس قتل کے لئے ذمہ دار ہیں“ لیکن اِس کے چند گھنٹوں بعد اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم ’بی ٹسلم‘ کے فیلڈ ورکرز نے اسرائیلی دعوؤں کی تردید کر دی۔ سترہ مئی کو امریکہ کے وزیر دفاع جنرل لائیڈ آسٹن (ریٹائرڈ) کی اپنے اسرائیلی ہم منصب بینی گانٹز سے ملاقات ہوئی۔ تل ابیب میں ہوئی اِس اہم ملاقات میں فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم سے پیدا ہونے والی صورتحال بھی زیربحث آئی۔ اسرائیلی پریس کے مطابق اسرائیلی وزیردفاع نے شیریں اَبوعاقلہ کے قتل کی تحقیقات کرانے کی امریکی تجویز کا خیرمقدم کیا ہے لیکن یہ دعویٰ اپنی جگہ بے معنی ہے کیونکہ اسرائیل پہلے ہی ایسی کسی بھی قسم کی تحقیقات نہ کرانے کا اعلان کر چکا ہے۔